Download Urdu Novels in PDF, Free Urdu Novels PDF, Peer e Kamil by Umera Ahmed,

Blog Archive

Tag

منور رانا کی حقیقت بھری غزل


سیاسی آدمی کی شکل تو پیاری نکلتی ہے
مگر جب گفتگو کرتا ہے چنگاری نکلتی ہے

لبوں پر مسکراہٹ دل میں بیزاری نکلتی ہے
بڑے لوگوں میں ہی اکثر یہ بیماری نکلتی ہے

محبت کو زبردستی تو لادا جا نہیں سکتا
کہیں کھڑکی سے میری جان الماری نکلتی ہے

یہی گھر تھا جہاں مل جل کے سب ایک ساتھ رہتے تھے
یہی گھر ہے الگ بھائی کی افطاری نکلتی ہے

وصی شاہ کی ایک دلکش غزل



میں تیرے لب پہ ہوں دیرینہ شیکایت کی طرح
یاد رکھنا ہے تو نے مجھ کو عداوت کی طرح

چاند نکلے تو میرا جسم مہک اُٹھتا ھے
رُوح میں اُٹھتی ہوئی تازہ محبت کی طرح

تیری خاطر تو کوئی جان بھی لے سکتا ھوں
میں نے چاہا ہے تجھے گاؤں کی عزت کی طرح

کھل رہی ہےمیرے دیرینہ مسائل کی گرہ
میرے ماحول میں اُترا ہے وہ برکت کی طرح

اب تیرے ہجر میں کوئی لطف نہیں ہے باقی
اب تجھے یاد بھی کرتے ہیں تو عادت کی طرح

تم میری پہلی محبت تو نہیں ہو لیکن
میں نے چاہا ہے تمہیں پہلی محبت کی طرح

وہ جو آتی ہے تو پھر لوٹ کے جاتی ہی نہیں
تم لپٹ جاؤ کبھی ایسی مصیبت کی طرح

میرے دل میں کوئی معصوم سا بچہ ہے وصیؔ
جو تجھے سوچتا رہتا ہے شرارت کی طرح

امجد اسلام امجد کا فن پارہ



ہاتھ پہ ہاتھ دَھرے بیٹھے ہیں‘ فرصت کتنی ہے
پھر بھی تیرے دیوانوں کی شہرت کتنی ہے!

سورج  گھر سے نکل چکا تھا کرنیں تیز کیے
شبنم گُل سے پوچھ رہی تھی ”مہلت کتنی ہے!“

بے مقصد سب لوگ مُسلسل بولتے رہتے ہیں
شہر میں دیکھو سناٹے کی دہشت کتنی ہے!

لفظ تو سب کے اِک جیسے ہیں‘ کیسے بات کھلے؟
دُنیا داری کتنی ہے اور چاہت کتنی ہے!

سپنے بیچنے آ تو گئے ہو‘ لیکن دیکھ تو لو
دُنیا کے بازار میں ان کی قیمت کتنی ہے!

دیکھ غزالِ رم خوردہ کی پھیلی آنکھوں میں
ہم کیسے بتلائیں دل میں وحشت کتنی ہے!

ایک ادھورا وعدہ اُس کا‘ ایک شکستہ دل
لُٹ بھی گئی تو شہرِ وفا کی دولت کتنی ہے!

میں ساحل ہوں امجد اور وہ دریا جیسا ہے
کتنی دُوری ہے دونوں میں‘ قربت کتنی ہے

جاوید اختر کا دلکش کلام



غزلِ جاوید اختر 


درد کے پھول بھی کھِلتے ہیں بِکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بَھر جاتے ہیں

راستہ روکے کھڑی ہے یہی اُلجھن کب سے
کوئی پُوچھے تو کَہیں کیا کہ کدھر جاتے ہیں

چھت کی کڑیوں سے اُترتے ہیں میرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکرا کے بِکھر جاتے ہیں

نرم الفاظ بھلی باتیں مہذّب لہجے
پہلی بارش ہی میں یہ رنگ اُتر جاتے ہیں

اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھُکائے ہوئے چُپ چاپ گزر جاتے ہیں

راحتؔ اندوری اپنے مخصوص لہجے میں۔۔۔


راحتؔ اندوری اپنے مخصوص لہجے میں۔۔۔

سمندر پار ہوتی جا رہی ہے
دعا ، پتوار ہوتی جا رہی ہے

دریچے اب کھلے ملنے لگے ہیں
فضا ہموار ہوتی جا رہی ہے

کئی دن سے مرے اندر کی مسجد
خدا بیزار ہوتی جا رہی ہے



مسائل، جنگ، خوشبو، رنگ، موسم
غزل اخبار ہوتی جا رہی ہے

بہت کانٹوں بھری دنیا ہے لیکن
گلے کا ہار ہوتی جا رہی ہے

کٹی جاتی ہیں سانسوں کی پتنگیں
ہوا تلوار ہوتی جا رہی ہے

کوئی گنبد ہے دروازے کے پیچھے
صدا بیکار ہوتی جا رہی ہے

گلے کچھ دوست آ کر مل رہے ہیں
چھری پر دھار ہوتی جا رہی ہے

قتیل شفائی کی ایک پیاری غزل


قتیل شفائی کی ایک پیاری غزل

تمہاری انجمن سے اُٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے

نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے


تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی
تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے

چلو اچھا ہوا، کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے

قتیلؔ اپنا مقدر غم سے بیگانہ اگر ہوتا
تو پھر اپنے پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے

غزلِ امجد اسلام امجد



غزلِ امجدؔ اسلام امجد 

نہ ربط ہے نہ معانی ، کہیں تو کس سے کہیں!
ہم اپنے غم کی کہانی ، کہیں تو کس سے کہیں!

سلیں ہیں برف کی سینوں میں اب دلوں کی جگہ
یہ سوزِ دردِ نہانی کہیں تو کس سے کہیں!

نہیں ہے اہلِ جہاں کو کو خود اپنے غم سے فراغ
ہم اپنے دل کی گرانی کہیں تو کس سے کہیں!

پلٹ رہے ہیں پرندے بہار سے پہلے
عجیب ہے یہ نشانی کہیں تو کس سے کہیں!

نئے سُخن کی طلبگار ہے نئی دُنیا
وہ ایک بات پرانی کہیں تو کس سے کہیں

نہ کوئی سُنتا ہے امجد نہ مانتا ہے اسے
حدیثِ شامِ جوانی کہیں تو کس سے کہیں!

امجد اسلام امجد کی پیاری غزل



ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی 
دیوار پر لکھی ہوئی تحریر جو بھی تھی 

ہر فرد لاجواب تھا، ہر نقش بے مثال
مِل جُل کے اپنی قوم کی تصویر جو بھی تھی 

جو سامنے ہے، سب ہے یہ،اپنے کیے کا پھل
تقدیر کی تو چھوڑئیے تقدیر جو بھی تھی

آیا اور اک نگاہ میں برباد کر گیا
ہم اہلِ انتظار کی جاگیر جو بھی تھی

قدریں جو اپنا مان تھیں، نیلام ہو گئیں 
ملبے کے مول بک گئی تعمیر جو بھی تھی 

طالب ہیں تیرے رحم کےعدل کے نہیں 
جیسا بھی اپنا جُرم تھا، تقصیر جو بھی تھی

ہاتھوں پہ کوئی زخم  نہ پیروں پہ کچھ نشاں 
سوچوں میں تھی پڑی ہُوئی، زنجیر جو بھی تھی

یہ اور بات چشم نہ ہو معنی آشنا
عبرت کا ایک درس تھی تحریر جو بھی تھی

جون ایلیا : خواب کے رنگ دل و جاں میں سجائے بھی گئے




خواب کے رنگ دل و جاں میں سجائے بھی گئے
پھر وہی رنگ بہ صد طور جلائے بھی گئے

انہیں شہروں کو شتابی سے لپیٹا بھی گیا
جو عجب شوق فراخی سے بچھائے بھی گئے

بزمِ شوق کا کسی کی کہیں کیا حال جہاں
دل جلائے بھی گئے اور بجھائے بھی گئے

پشت مٹی سے لگی جس میں ہماری لوگو!
اُسی دنگل میں ہمیں داؤ سِکھائے بھی گئے


یادِ ایام کہ اک محفلِ جاں تھی کہ جہاں
ہاتھ کھینچے بھی گئے اور مِلائے بھی گئے

ہم کہ جس شہر میں تھے سوگ نشینِ احوال
روز اس شہر میں ہم دھوم مچائے بھی گئے

یاد مت رکھیو رُوداد ہماری ہرگز
ہم تھے وہ تاج محل جونؔ جو ڈھائے بھی گئے

بہت پر لطف گو اردو زباں ہے حافظ محمد ولایت اﷲ حافظ (ناگپوری)




بہت پر لطف گو اردو زباں ہے
حافظ محمد ولایت اﷲ حافظ (ناگپوری)

 بہت پر لطف گو اردو زباں ہے
مذکر اور مونّث کی ہے دقّت

حجاب و پردہ گھونگھٹ اور برقع
مذکر ہے یہ کل سامانِ عورت

مونث ہے جناب شیخ کی ریش
ہو کچھ بھی اس کی مقدار و طوالت

مذکر ہو گیا گیسوئے جاناں
ہوئی اس کی طوالت کی یہ عزّت

دُوپٹّہ عورتوں کا ہے مذکر
مونث کیوں ہے دستارِ فضیلت

فراق و وصل ہیں دونوں مذکر
مونث ہے مگر واعظ کی صحبت

ہوئیں جب مونچھ اور داڑھی مونث
تو پھر کرنا پڑا دونوں کو رخصت



خمارؔ بارہ بنکوی کی غزل





جذبات میں وہ پہلی سی شدّت نہیں رہی

ضعفِ قویٰ نے آمدِ پیری کی دی نوید
وہ دل نہیں رہا، وہ طبیعت نہیں رہی

سر میں وہ انتظار کا سودا نہیں رہا
دل پر وہ دھڑکنوں کی حکومت نہیں رہی

کمزوریِ نگاہ نے سنجیدہ کر دیا
جلووں سے چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں رہی

ہاتھوں سے انتقام لیا ارتعاش نے
دامانِ یار سے کوئی نسبت نہیں رہی

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر ۔ ۔ مجروح سلطانپوری





سوزِ جاناں دل میں سوز دیگراں بنتا گیا

رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسمِ چمن
دھیرے دھیرے نغمۂ دل بھی فغاں  بنتا گیا

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایانِ شوق
خار سے گل اور گل سے گلستاں  بنتا گیا

شرحِ غم تو مختصر ہوتی گئی اس کے حضور
لفظ جو منہ سے نہ نکلا داستاں  بنتا گیا

دہر میں مجروحؔ کوئی جاوداں مضموں کہاں
میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا

محسن ؔبھوپالی کی ایک غزل


محسن ؔبھوپالی کی ایک غزل

وہ برگِ خشک تھا اور دامنِ بہار میں تھا
نمودِ نو کی بشارت کے انتظار میں تھا

مری رفیقِ سفر تھیں حسد بھری نظریں
وہ آسمان تھا اور میرے اختیار میں تھا

بکھر گیا ہے تواب دل نگار خانہ ہے
غضب کا رنگ اس اک نقشِ اعتبار میں تھا

اب آگیا ہے تو ویرانیوں پر طنز نہ کر
ترا مکاں اسی اجڑے ہوئے دیار میں تھا

لکھے تھے نام مرے قتل کرنے والوں کے
عجیب بات ہے، میں بھی اسی شمار میں تھا

مجھے تھا زعم مگر میں بکھر گیا محسنؔ
وہ ریزہ ریزہ تھا اور اپنے اختیار میں تھا

امجدؔ اسلام امجد کی ایک پیاری سی غزل



امجدؔ اسلام امجد کی ایک پیاری سی غزل

یہ رُکے رُکے سے آنسو، یہ دبی دبی سی آہیں
یونہی کب تلک خدایا،  غم زندگی نباہیں

کہیں ظلمتوں میں گھِر کر، ہے تلاشِ دست رہبر
کہیں جگمگا اُٹھی ہیں مرے نقشِ پا سے راہیں

ترے خانماں خرابوں کا چمن کوئی نہ صحرا
یہ جہاں بھی بیٹھ جائیں وہیں ان کی بارگاہیں

کبھی جادۂ طلب سے جو پھرا ہوں دل شکستہ
تری آرزو نے ہنس کر  وہیں ڈال دی ہیں بانہیں

مرے عہد میں نہیں ہے،  یہ نشانِ سر بلندی
یہ رنگے ہوئے عمامے  یہ جھکی جھکی کُلاہیں

حفیظؔ بنارسی کی ایک غزل



حفیظؔ بنارسی کی ایک غزل

کچھ اس کے سنور جانے کی تدبیر نہیں ہے
دُنیا ہے تری زلفِ گرہ گیر نہیں ہے

کیوں تیری نوازش نہیں اب دیدہ و دل پر
کیا اب ترے ترکش میں کوئی تیر نہیں ہے

ٹوکیں گے تجھے ہم ترے اندازِ غلط پر
میخانہ ہے ساقی تری جاگیر نہیں ہے

ہر طرح کی پابندی ہے میرے لئے لیکن
اُس شوخ کی خاطر کوئی زنجیر نہیں ہے

گر کوئی گلہ ہے تو حفیظؔ اپنے عمل سے
ہونٹوں پہ مرے شکوۂ تقدیر نہیں ہے

احمد ندیم قاسمی کی ایک غزل




غزلِاحمد ندیمؔ قاسمی


انداز ہو بہو تری آوازِ پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا

اس حسنِ اتفاق پہ لٹ کے بھی شاد ہوں
تیری رضا جو تھی وہ تقاضا وفا کا تھا

دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئ
یہ تیری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا

اس رشتہء لطیف کے اسرار کیا کھلیں
تو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا

چھپ چھپ کے روؤں اور سرِ انجمن ہنسوں
مجھ کو یہ مشورہ مرے درد آشنا کا تھا

اٹھا عجب تضاد سے انسان کا خمیر
عادی فنا کا تھا تو پجاری بقا کا تھا

ٹوٹا تو کتنے آئینہ خانوں پہ زد پڑی
اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا

حیران ہوں کہ دار سے کیسے بچا ندیم
وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا


حضرت بیخود ؔ دہلوی کی غزل




حضرت بیخود ؔ دہلوی کی غزل

بات کرنے میں گزرتی ہے ملاقات کی رات
بات ہی کیا ہے جو رہ جاؤ یہیں رات کی رات

اس شبِ تار میں جانے کی اجازت کیا خوب
اور پھر اس پر یہ طرہ ہے کہ برسات کی رات

تکیہ خشتِ خمِ مئے فرشِ زمین بسترِ خواب
چین سے کٹتی ہے رندانِ خرابات کی رات

سرد مہری نے تری مجھ کو رلا رکھا ہے
کبھی جاڑے مین بھی آ جاتی ہے برسات کی رات

حور کے شوق میں تڑپا کئے ہم تو واعظ
کہئے کس طرح کٹی قبلہ حاجات کی رات

غیر کا ذکر کبھی ختم ہوگا کہ نہیں
یہ شبِ وصل ہے یا حرف و حکایات کی رات

ذکرِ تقصیرِ گذشتہ نہیں تعزیر سے کم
یہ نلاقات کی شب ہے کہ مکافات کی رات

اور مہمان ہے دو چار گھڑی کا بیخودؔ
آپ آرام کریں آج یہیں رات کی رات

واصف علی واصف کی ایک غزل



غزلِ

واصفؔ علی واصف


ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت

سینے میں اگر سوز سلامت ہو تو خود ہی
اشعار میں ڈھل جاتی ہے افکار کی صورت

جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سِوا کیا ترے دیدار کی صورت

پہچان لیا تجھ کو تری شیشہ گری سے
آتی ہے نظر فن سے ہی فنکار کی صورت

اشکوں نے بیاں کرہی دِیا رازِ تمنّا
ہم سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت

اس خاک میں پوشیدہ ہیں ہر رنگ کے خاکے
مٹی سے نکلتے ہیں جو گلزار کی صورت

دل ہاتھ پہ رکھا ہے، کوئی ہے جو خریدے
دیکھوں تو ذرا میں بھی خریدار کی صورت

صورت مری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صورت

واصفؔ کو سرِ دار پکارا ہے کسی نے
انکار کی صورت ہے نہ اقرار کی صورت

عالمتاب تشنہؔ کی ایک پیاری غزل


عالمتاب تشنہؔ کی ایک پیاری غزل

سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا
پڑے جو آگ کا دریا تو پار کر جانا

یہ اک اشارہ ہے آفاتِ ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کرجانا

یہ انتقام ہے دشتِ بلا سے بادل کا
سمندروں پہ برستے ہوئے گزر جانا

تمھارا قُرب بھی دُوری کا استعارہ ہے
کہ جیسے چاند کا تالاب میں اُتر آنا

مرے یقین کو بڑا بدگمان کرکے گیا
دعائے نیم شب تیرا بے اثر جانا

عجب ہیں رزم گاہِ زندگی کے یہ انداز
اُسی نے وار کیا جس نے بے سپر جانا

ہمارے دم سے ہی آوارگیِ شب تھی
ہمیں عجیب لگے شام ہی سے گھر جانا

آغا شاعرؔ قزلباش ( افسر الشعراء آغا ظفر علی بیگ) کی غزل



آغا شاعرؔ قزلباش ( افسر الشعراء آغا ظفر علی بیگ) کی غزل

جگر میں درد ہے ، دل مضطرب ہے جان بیکل ہے
مجھے اس بے خودی میں بھی خبر ہے اپنے عالم کی

شکایت کس سے کیجیے ہائے کیا الٹا زمانہ ہے
بڑھایا پیار جب ہم نے محبت یار نے کم کی

کہاں جانا ہے تھم تھم کر چلو ، ایسی بھی کیا جلدی
تمہی تم ہو خدا رکھے، نظر پڑتی ہے عالم کی

کوئی ایسا ہو آئینہ کہ جس میں تو نظر آئے
زمانے بھر کا جھوٹا ، کیا حقیقت ساغر جم کی

(مختصر تعارف( وکیپیڈیا سے 

پیدائش؛1871ء وفات؛ 1940ء
اردو شاعر۔ آغا مظفر بیگ قزلباش نام۔ داغ دہلوی سے اصلاح لیتے تھے۔ تیس سال کی عمر میں تلاش معاش میں حیدر آباد دکن گئے اور داغ کی سفارش پر مہاراجہ سرکش پرشاد کی ڈیوڑھی پر ملازم ہوگئے۔ وہاں سے کلکتے چلے گئے اور ناٹک کمپنیوں کے ڈرامے لکھنے لگے۔ پھر ریاست جھالا واڑکے درباری شاعر مقرر ہوئے۔ وہیں رباعیات عمر خیام کا منظوم ترجمہ کیا۔ پہلا دیوان تیر و نشتر کے نام سے 1906میں شائع ہوا۔ قتل بے نظیر ان کا مشہور ڈراما ہے۔ دوسری تصانیف آویزہ گوش اور دامن مریم ہیں۔

مزید ایک غزل جو ہمیں  اردو محفل فورم سے حاصل ہوئی۔


جوشِ الفت میں وہ قطرے کا فنا ہو جانا
اُس پہ دریا کا وہ لب تشنہ سوا ہوجانا

کوئی انداز ہے! رہ رہ کے ، خفا ہوجانا
اپنے بندوں سے، یہ کھچنا کہ خدا ہوجانا

ضبطِ غم سے مری آہوں کے شرارے کجلائے
بے ہوا، کام ہے شعلے کا فنا ہوجانا

اپنے نیرنگیء انداز کا اعجاز تو دیکھ
ابھی شوخی تھی، ابھی اس کا حیا ہوجانا

اس زمانے میں نہیں کوئی کسی کا ہمدرد
دل کے دو حرف ہیں، اُن کو بھی جدا ہوجانا

ضعف سے اُٹھ نہیں سکتا تیرا بیمار فراق!
اے اجل! تو ہی کرم کر کے ذرا ہو جانا

شاعرِ زا ر نہیں کوئی بھی معیار مرا
پھر بھی مشہور ہے کھوٹے کا کھرا ہو جانا