Download Urdu Novels in PDF, Free Urdu Novels PDF, Peer e Kamil by Umera Ahmed,

Tag

Allam Iqbal .. Ahd-e-Tifli



عہد طفلی
(علّامہ اقبالؔ)
تھے دیار نو زمین و آسماں میرے لیے

وسعت آغوش مادر اک جہاں میرے لیے

تھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں میرے لیے

حرف بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لیے

درد ، طفلی میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے

شورش زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے

تکتے رہنا ہائے! وہ پہروں تلک سوئے قمر

وہ پھٹے بادل میں بے آواز پا اس کا سفر

پوچھنا رہ رہ کے اس کے کوہ و صحرا کی خبر

اور وہ حیرت دروغ مصلحت آمیز پر

آنکھ وقف دید تھی ، لب مائل گفتار تھا

دل نہ تھا میرا ، سراپا ذوق استفسار تھا

Nasir Kazmi ... Hoti hai tere nam se wahshat kabhi kabhi



ہوتي ہے تيرے نام سے وحشت کبھي کبھي
(ناصرؔ کاظمي)

ہوتي ہے تيرے نام سے وحشت کبھي کبھي
برہم ہوئي ہے يوں بھي طبيعت کبھي کبھي

اے دل، کسے نصيب يہ توفيق اضطراب
ملتي ہے زندگي ميں يہ راحت کبھي کبھي

تيرے کرم سے اے الم حسن آفريں!
دل بن گيا ہے دوست کي خلوت کبھي کبھي

جوش جنوں ميں درد کي طغيانيوں کے ساتھ
اشکوں ميں ڈھل گئي تيري صورت کبھي کبھي

تيرے قريب رہ کے بھي دل مطمئن نہ تھا
گزري ہے مجھ پہ يہ بھي قيامت کبھي کبھي

کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خيال تھا
يوں بھي گزر گئي شب فرقت کبھي کبھي

اے دوست، ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کي ہے تيري ضرورت کبھي کبھي

Majrooh Sultanpuri.. Nigah-e-saqi-e-Na maherabaa`n ye kya jane





نگاہِ ساقیِ نا مہرباں یہ کیا جانے
 (مجروحؔ سلطان پوري)

نگاہ ِ ساقي ِ نامہرباں يہ کيا جانے
کہ ٹوٹ جاتے ہيں خود دل کے ساتھ پيمانے

ملي جب ان سے نظر بس رہا تھا ايک جہاں
ہٹي نگاہ تو چاروں طرف تھے ويرانے

حيات لغزش ِ پيہم کا نام ہے ساقي
لبوں سے جام لگا بھي سکوں خدا جانے

وہ تک رہے تھے، ہميں ہنس کے پي گئے آنسو
وہ سن رہے تھے، ہميں کہہ سکے نہ افسانے

يہ آگ اور نہيں دل کي آگ ہے، ناداں!
چراغ ہو کہ نہ ہو، جل بجھيں گے پروانے

فريب  ساقي ِ محفل نہ پوچھئے، مجروحؔ
شراب ايک ہے، بدلے ہوئے ہيں پيمانے



Majrooh Sultanpuri .. Ham hai Mata-e-kucha w Bazar ki tarah




ہم ہيں متاعِ کوچہ و بازار کي طرح
(مجروحؔ سلطان پوري)

ہم ہيں متاع کوچہ و بازار کي طرح
اٹھتي ہے ہر نگاہ خريدار کي طرح

اس خوئے تشنگي ميں بہت ہے کہ ايک جام
ہاتھ آ گيا ہے دولت ِ بيدار کي طرح

وہ تو ہيں کہيں اور مگر دل کے آس پاس
پھرتي ہے کوئي شئے نگہ ِ يار کي طرح

سيدھي ہے راہ ِ شوق پہ يونہي کبھي کبھي
خم ہو گئي ہے گيسوئے دلدار کي طرح

اب جا کے کچھ کھلا ہنر ِ ناخن ِ جنوں
زخم ِ جگر ہوئے لب و رخسار کي طرح

مجروحؔ لکھ رہے ہيں وہ اہل ِ وفا کا نام
ہم بھي کھڑے ہوئے ہيں گنہگار کي طرح

Ibn-e-Insha .. Apne humrah jo




اپنے ہمراہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے
(ابن انشا ؔٴ)

اپنے ہمراہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے
دشت پڑتا ہے مياں عشق ميں گھر سے پہلے

چل ديا اٹھ کے سوئے شہر وفا، کوئے حبيب
پوچھ لينا تھا کسي خاک بسر سے پہلے

عشق پہلے بھي کيا، ہجر کا غم بھي ديکھا
اتنے تڑپے ہيں نہ گھبرائے نہ ترسے پہلے

جي بہلتا ہي نہيں اب کوئي ساعت، کوئي پل
رات ڈھلتي ہي نہيں چار پہر سے پہلے

ہم کسي در پہ نہ ٹھٹھکے، نہ کہيں دستک دي
سينکڑوں گھر تھے ميري جاں تيرے در سے پہلے

چاند سے آنکھ ملي، جي کا اجالا جاگا
ہم کو سو بار ہوئي صبح سحر سے پہلے

Meer Taqi Meer ... aarzuwe hazaar rakhte hai




آرزوئيں ہزار رکھتے ہيں
(مير تقي ميرؔ)

آرزوئيں ہزار رکھتے ہيں
تو بھي ہم دل کو مار رکھتے ہيں

برق کم حوصلہ ہے ہم بھي تو
دل اک بے قرار رکھتے ہيں

غير ہے مورد عنايت، ہائے
ہم بھي تو تم سے پيار رکھتے ہيں

نہ نگہ، نہ پيام، نہ وعدہ
نام کو ہم بھي يار رکھتے ہيں

ہم سے خوش زمزمہ کہاں يوں تو
لب ہ لہجہ ہزار رکھتے ہيں

چھوٹے دل کے ہيں يہ بتاں مشہور
بس يہي اعتبار رکھتے ہيں

پھر بھي کرتے ہيں ميرؔ صاحب عشق
ہيں جواں اختيار رکھتے ہيں

Momin Khan momin... Thani thi dil me ab na milege kisi se ham




ٹھاني تھي دل ميں، اب نہ مليں گے کسي سے ہم
(مومن خان مومنؔ)

ٹھاني تھي دل ميں، اب نہ مليں گے کسي سے ہم
پر کيا کريں کہ ہو گئے ناچار جي سے ہم

ہم سے نہ بولو تم، اسے کيا کہتے ہيں بھلا؟
انصاف کيجے، پوچھتے ہيں آپ ہي سے ہم

کيا گل کھلے گا ديکھيے ہے فصل ِ گل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہيں کچھ ابھي سے ہم

کيا دل کو لے گيا کوئي بيگانہ آشنا
کيوں اپنے جي کو لگتے ہيں کچھ اجنبي سے ہم

Ghalib .. Hazaro khwahishe aisi k har Khwahish pe Dam Nikle




ہزاروں خواہشيں ايسي کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
(مرزا اسد اللہ خان غالبؔ)

ہزاروں خواہشيں ايسي کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان ليکن پھر بھي کم نکلے

ڈرے کيوں ميرا قاتل؟ کيا رہے گا اس کي گردن پر؟
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر يوں دم بدم نکلے

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہيں ليکن
بہت بے آبرو ہو کر تيرے کوچے سے ہم نکلے

بھرم کھل جائے ظالم تيرے قامت کي درازي کا
اگر اس طرہٴ پُر پيچ و خم کا پيچ و خم نکلے

مگر لکھوائے کوئي اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئي صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

ہوئي اس دور ميں منسوب مجھ سے بادہ آشامي
پھر آيا وہ زمانہ ، جو جہاں ميں جام ِ جم نکلے

ہوئي جن سے توقع خستگي کي داد پانے کي
وہ ہم سے بھي زيادہ خستہ ِ تيغ ِ ستم نکلے

محبت ميں نہيں ہے فرق مرنے اور جينے کا
اسي کو ديکھ کر جيتے ہيں جس کافر پہ دم نکلے

ذرا کر زور سينے پر کہ تير ِ پُر ستم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے ، جو دل نکلے تو دم نکلے

خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم
کہيں ايسا نہ ہو ياں بھي وہي کافر صنم نکلے

کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہيں ، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

Ghalib .. Ki wafa ham se to ghair us ko..



کي وفا ہم سے تو غير اس کو جفا کہتے ہيں
(مرزا اسد اللہ خان غالبؔ)

کي وفا ہم سے تو غير اس کو جفا کہتے ہيں
ہوتي آئي ہے کہ اچھوں کہ برا کہتے ہيں

آج ہم اپني پريشاني ِ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہيں پر ديکھيے کيا کہتے ہيں

اگلے وقتوں کے ہيں يہ لوگ انہيں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہيں

ہے پرے سرحد ِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہل ِ نظر قبلہ نما کہتے ہيں

پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آيا ہے
خار ِ رہ کو ترے ہم مہر گيا کہتے ہيں

اک شرر دل ميں ہے، اس سے کوئي گھبرائے گا کيا
آگ مطلوب ہے ہم کو، جو ہوا کہتے ہيں

ديکھيے لاتي ہے اس شوخ کي نخوت کيا رنگ
اس کي ہر بات پہ ہم نام ِ خدا کہتے ہيں

وحشت و شيفتہ اب مرثيہ کہويں شايد
مر گيا غالب ِ آشفتہ نوا ، کہتے ہيں

Shaad Azeemabadi .. Tamanna-o me uljhaya gaya hu




تمناؤں ميں الجھايا گيا ہوں
(شادؔ عظيم آبادي)

تمناؤں ميں الجھايا گيا ہوں
کھلونے دے کے بہلايا گيا ہوں

ہوں اس کوچے ميں ہر ذرے سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آيا گيا ہوں

دل ِ مضطر سے پوچھ اے رونق ِ بزم
ميں خود آيا نہيں، لايا گيا ہوں

سويرا ہے بہت اے شور ِ محشر
ابھي بے کار اٹھوايا گيا ہوں

لحد ميں کيوں نہ جاؤں منہ چھپا کر
بھري محفل سے اٹھوايا گيا ہوں

کجا ميں اور کجا، اے شادؔ، دنيا
کہاں سے کس جگہ لايا گيا ہوں

Ganesh Bihari Tarz .. Mujhe de k mai mere saqiya..



مجھے دے کے مے ميرے ساقيا، ميري تشنگي کو ہوا نہ دے
(گنيش بہاري طرزؔ)

مجھے دے کے مے ميرے ساقيا، ميري تشنگي کو ہوا نہ دے
ميري پياس پر بھي تو کر نظر، مجھے مے کشي کي سزا نہ دے

ميرا ساتھ اے ميرے ہمسفر نہيں چاہتا ہے تو جام دے
مگر اس طرح سر ِ رہگزر مجھے ہر قدم پہ صدا نہ دے

ميرا غم نہ کر ميرے چارہ گر، تيري چارہ جوئي بجا مگر
ميرا درد ہے ميري زندگي، مجھے درد ِ دل کي دوا نہ دے

ميں وہاں ہوں اب ميرے ناصحا کي جہاں خوشي کا گزر نہيں
ميرا غم حدوں سے گزر گيا، مجھے اب خوشي کي دعا نہ دے

وہ گرائيں شوق سے بجلياں، يہ ستم کرم ہيں، ستم نہيں
کہ وہ طرز برق ِ جفا نہيں جو چمک کے نور ِ وفا نہ دے

Kirishn Bihari Noor .... Bas ek waq ka khanjar meri talash me hai




بس ايک وقت کا خنجر ميري تلاش ميں ہے
کرشن بہاري نور)

بس ايک وقت کا خنجر ميري تلاش ميں ہے
جو روز بھيس بدل کر ميري تلاش ميں ہے

ميں ايک قطرہ ہوں، ميرا الگ وجود تو ہے
ہوا کرے جو سمندر ميري تلاش ميں ہے

ميں ديوتا کي طرح قيد اپنے مندر ميں
وہ ميرے جسم کے باہر ميري تلاش ميں ہے

ميں جس کے ہاتھ ميں اک پھول دے کے آيا تھا
اسي کے ہاتھ کا پتھر ميري تلاش ميں ہے

Faiz Ahmed Faiz.. Aa k wabasta hai




آ کہ وابستہ ہے اس حسن کي ياديں تجھ سے

(فيض احمد فيض)

آ کہ وابستہ ہے اس حسن کي ياديں تجھ سے
جس نے اس دل کو پري خانہ بنا رکھا تھا
جس کي الفت ميں بھلا رکھي تھي دنيا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

آشنا ہيں تيرے قدموں سے وہ راہيں جن پر
اسکي مدہوش جواني نے عنايت کي ہے
کارواں گزرے ہيں جن سے اسي رعنائي کے
جس کي ان آنکھوں نے بےسود عبادت کي ہے

تجھ سے کھيلي ہيں وہ محبوب ہوائيں جن ميں
اسکے ملبوس کي افسردہ مہک باقي ہے
تجھ پہ بھي برسا ہے اس بام سے مہتاب کا نور
اور بيتي ہوئي راتوں کي کسک باقي ہے

تونے ديکھي ہيں وہ پيشاني، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگي جن کے تصور ميں لٹا دي ہم نے
تجھ پہ اٹھي ہيں وہ کھوئي ہوئي ساحر آنکھيں
تجھ کو معلوم ہے کيوں عمر گنوا دي ہم نے

Firaq gorakhpuri ... Kuch Ishare they jinhe duniya samajh Baithe..



کچھ اشارے تھے جنہيں دنيا سمجھ بيٹھے تھے ہم
(فراقؔ گورکھپوري)

کچھ اشارے تھے جنہيں دنيا سمجھ بيٹھے تھے ہم
اس نگاہ ِ آشنا کو کيا سمجھ بيٹھے تھے ہم

رفتہ رفتہ غير اپني ہي نظر ميں ہو گئے
واہ ري غفلت! تجھے اپنا سمجھ بيٹھے تھے ہم

ہوش کي توفيق بھي کب اہل ِ دل کو ہو سکي
عشق ميں اپنے کو ديوانہ سمجھ بيٹھے تھے ہم

بے نيازي کو تيري پايا سراسر سوز و درد
تجھ کو اک دنيا سے بيگانہ سمجھ بيٹھے تھے ہم

بھول بيٹھي وہ نگاہ ِ ناز عہد ِ دوستي
اس کو بھي اپني طبيعت کا سمجھ بيٹھے تھے ہم

حسن کو اک حسن کي سمجھے نہيں اور اے فراقؔ
مہرباں، نا مہرباں، کيا کيا سمجھ بيٹھے تھے ہم

Wasi Shah .. Aankho se meri is liye lali nahi jati




آنکھوں سے ميري اس ليے لالي نہيں جاتي
(وصي شاہ)

آنکھوں سے ميري اس ليے لالي نہيں جاتي
يادوں سے کوئي رات جو خالي نہيں جاتي

اب عمر، نہ موسم، نہ وہ رستے کہ وہ پلٹے
اس دل کي مگر خام خيالي نہيں جاتي

آئے کوئي آ کر يہ ترے درد سنبھالے
ہم سے تو يہ جاگير سنبھالي نہيں جاتي

معلوم ہميں بھي ہيں بہت سے تيرے قصے
ہر بات تيری ہم سے اچھالي نہيں جاتي

ہمراہ تيرے پھول کھلاتي تھي جو دل ميں
اب شام وہي درد سے خالي نہيں جاتي

ہم جان سے جائيں گے تبھي بات بنے گي
تم سے تو کوئي راہ نکالي نہيں جاتي

Ghalib .. Aao ko chahye ek umr asar hone tak




آہ کو چاہئيے اک عمر اثر ہونے تک
(مرزا اسد اللہ خان غالبؔ)

آہ کو چاہئيے اک عمر اثر ہونے تک
کون جيتا ہے تري زلف کے سر ہونے تک

دام ہر موج ميں ہے حلقہ صد کام نہنگ
ديکھيں کيا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

عاشقي صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کيا رنگ کروں خون جگر ہونے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے، ليکن
خاک ہو جائيں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک

پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کي تعليم
ميں بھي ہوں ايک عنايت کي نظر ہونے تک

يک نظر بيش نہيں فرصت ہستي، غافل!
گرمي بزم ہے اک رقص شرر ہونے تک

غم ہستي کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ ميں جلتي ہے سحر ہونے تک

Ahemad Faraz ... Yu to Kahne ko Bahot log Shanasa mere




یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
((احمد فرازؔ
یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے

وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مرے ہیں، یہی اعدا میرے

میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے ، اے صاحبِ دریا میرے

مجھ کو اس ابرِ بہاری سے ہے کب کی نسبت
پر مقدر میں وہی پیاس کے صحرا میرے

دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جانِ فرازؔ
اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے