Download Urdu Novels in PDF, Free Urdu Novels PDF, Peer e Kamil by Umera Ahmed,

Blog Archive

Tag

Urdu Shairy : Habeeb jalib .. ki ek ghazal



حبیب جالب ؔ کی ایک غزل


محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے
ترے شہر میں اک جہاں چھوڑ آئے

پہاڑوں کی وہ مست شاداب وادی
جہاں ہم دلِ نغمہ خواں چھوڑ آئے

وہ سبزہ ، وہ دریا، وہ پیڑوں کے سائے
وہ گیتوں بھری بستیاں چھوڑ آئے

حسیں پنگھٹوں کا وہ چاندی سا پانی
وہ برکھا کی رت وہ سماں چھوڑ آئے

بہت دور ہم آگئے اس گلی سے
بہت دور وہ آستاں چھوڑ آئے

بہت مہرباں تھیں وہ گلپوش راہیں
مگر ہم انہیں مہرباں چھوڑ آئے

بگولوں کی صورت یہاں پھر رہے ہیں
نشیمن سرِ گلستاں چھوڑ آئے

یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

چلے آئے ان راہگزاروں سے جالب
مگر ہم وہاں قلب و جاں چھوڑ آئے


Urdu Shairy .. Jadeed Ghazal



ایم۔ جے ۔خالد کا جدید رنگ تغزّل

نامہ بر میرے لئے ہے ڈیش ڈیش
یہ خبر میرے لئے ہے ڈیش ڈیش
گل مہر کے ہاتھ پر بیعت کروں
گل مہر میرے لئے ہے ڈیش ڈیش
جس ڈگر سے خوف کھاتا ہے جہاں
وہ ڈگر میرے لئے ہے ڈیش ڈیش
اس سفر کا منتظر تھا کب سے میں
یہ سفر میرے لئے ہے ڈیش ڈیش
جس ہنر کا وہ اڑاتا ہے مذاق
وہ ہنر میرے لئے ہے ڈیش ڈیش 

Urdu Shairy ..Munawwar rana



منوّر رانا کی حسّاس غزل

ہر ایک آواز اردو کو فریادی بتاتی ہے
یہ پگلی پھر بھی اب تک خود کو شہزادی بتاتی ہے

کئی باتیں محبت سب کو بنیادی بتاتی ہے
جو پر دادی بتاتی تھی وہی دادی بتاتی ہے

جہاں پچھلے کئی برسوں سے کالے ناگ رہتے ہیں
وہاں چڑیا کا ایک گھونسلہ تھا دادی بتاتی ہے

ابھی تک یہ علاقہ ہے رواداری کے قبضے میں
ابھی فرقہ پرستی کم ہے آبادی بتاتی ہے

یہاں ویرانیوں کی ایک مدت سے حکومت ہے
یہاں سے نفرتیں گذری ہے بربادی بتاتی ہے

لہو کیسے بہایا جائے یہ لیڈر بتاتے ہیں
لہو کا ذائقہ کیسا ہے یہ کھادی بتاتی ہے

غلامی نے ابھی تک ملک کا پیچھا نہیں چھوڑا
ہمیں پھر قید ہونا ہے یہ آزادی بتاتی ہے

غریبی کیوں ہمارے شہر سے باہر نہیں جاتی
امیرِ شہر کے گھر کی ہر ایک شادی بتاتی ہے

میں ان آنکھوں کے میخانے میں تھوڑی دیر بیٹھا تھا
مجھے دنیا نشے کا آج تک عادی بتاتی ہے

Majid Deobandi ki ek Ghazal



بندگی کی عزمت کو عرش سے ملا دوں گا
تیرے آستانے پر جب میں سر جھکا دوں گا

عمر بھر دعا مانگی جس نے میرے مرنے کی
میں اسی کو جینے کی عمر بھر دعا دونگا

لاکھ روئے زیبا کو تم چھپاؤ پردے میں
جب بھی دل پکارے گا ہر نقاب اٹھا دوں گا

داستاں تباہی کی آپ پوچھتے کیا ہے
میں اگر سناؤں گا آپکو رلا دوں گا

مسکراتے زخموں سے حال پوچھ لو میرا
آپ کے سوالوں کا میں کیا جواب دوں گا

میں سدا کھلاؤں گا پھول مہر و الفت کے
آتشِ وداوت کو پیار سے بجھا دوں گا

التفاتِ عالی کا یہ جواب ہے ماجدؔ
جب وہ مسکرائیں گے میں غزل سنا دوں گا

فرزانہ نیناں Farzana Naina .. Chai hui hai yas ki gaherii khamooshiya



فرزانہ نیناںؔ
چھائی ہوئی ہیں یاس کی گہری خموشیاں
کب تک رہیں گی نصب یہ قبروں پہ تختیاں
سوکھے ہوئے درخت پہ بارش کا تھا کرم
نشے سے بھر گئیں مرے گلشن کی ڈالیاں
حالات نے جو بیج مرے دل میں بوئے ہیں

پھوٹا کریں گی ان میں سے شبنم کی بالیاں

احساس تک نہیں تمہیں، جھونکا اداس سا

اک بار تم کو چھونے سے ہوتا ہے خوش گماں

ہم سب کو تشنگی نے کیا اس طرح نڈھال

یک لخت سب نے منہ سے لگائیں پیالیاں

پھر بانسری بجی ہے کہیں درد سے بھری

پھر رو پڑی ہیں میرے خیالوں کی شوخیاں

کیا اب کوئی چراغ افق پر رہا نہیں

صدیوں سے آ رہی ہیں جو تاریک بدلیاں

خیمے اُکھیڑتے ہوئے سانسیں اُکھڑ گئیں

کب تک رہیں گی ساتھ یہ خانہ بدوشیاں

نیناں، وہ کس لگن سے تجھے کر رہا ہے یاد

تجھ کو جو آ رہی ہیں لگاتار ہچکیاں


Fakherah Batool ka kalaam ۔ ۔ ۔ فاخرہ بتول



فاخرہ بتول کا کلام

بتاؤ دل کی بازی میں بھلا کیا بات گہری تھی؟
کہا، یُوں تو سبھی کچھ ٹھیک تھا پر مات گہری تھی

سُنو بارش ! کبھی خود سے بھی کوئی بڑھ کے دیکھا ہے؟
جواب آیا، اِن آنکھوں کی مگر برسات گہری تھی

سُنو، پیتم نے ہولے سے کہا تھا کیا، بتاؤ گے؟
جواب آیا، کہا تو تھا مگر وہ بات گہری تھی

دیا دل کا سمندر اُس نے تُم نے کیا کیا اس کا؟
ہمیں بس ڈوب جانا تھا کہ وہ سوغات گہری تھی

وفا کا دَشت کیسا تھا، بتاؤ تُم پہ کیا بِیتی ؟
بھٹک جانا ہی تھا ہم کو ، وہاں پر رات گہری تھی

تُم اس کے ذکر پر کیوں ڈوب جاتے ہو خیالوں میں؟
رفاقت اور عداوت اپنی اس کی سات گہری تھی

نظر آیا تمہیں اُس اجنبی میں کیا بتاؤ گے؟
سُنو، قاتل نگاہوں کی وہ ظالم گھات گہری تھی


خمار بارہ بنکوی Khumar barah bankavi .. Bhoole hai rafta rafta unhe muddato me ham



بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدّتوں میں ہم
(خمارؔ بارہ بنکوی )

اک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھیے
دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھیے

بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدّتوں میں ہم
قسطوں میں خود کشی کا مزا ہم سے پوچھیے

آغازِعاشقی کا مزا آپ جانیے
انجامِ عاشقی کا مزا ہم سے پوچھیے

وہ جان ہی گئے کہ ہمیں ان سے پیار ہے
آنکھوں کی مخبری کا مزا ہم سے پوچھیے

جلتے دلوں میں جلتے گھروں جیسی ضَو کہاں
سرکار روشنی کا مزا ہم سے پوچھیے

ہنسنے کا شوق ہم کو بھی تھا آپ کی طرح
ہنسیے مگر ہنسی کا مزا ہم سے پوچھیے

ہم توبہ کر کے مر گئے قبلِ اجل خمارؔ
توہینِ مے کشی کا مزا ہم سے پوچھیے

Khumar Barah bankavi ki Ghazal



خمارؔ بارہ بنکوی کی ایک غزل

ہجر کی شب ہے اور اجالا ہے
کیا تصور بھی لٹنے والا ہے

غم تو ہے عینِ زندگی لیکن
غمگساروں نے مار ڈالا ہے

عشق مجبور و نامراد سہی
پھر بھی ظالم کا بول بالا ہے

دیکھ کر برق کی پریشانی
آشیاں خود ہی پھونک ڈالا ہے

کتنے اشکوں کو کتنی آہوں کو
اک تبسم میں اس نے ڈھالا ہے

تیری باتوں کو میں نے اے واعظ
احتراماً ہنسی میں ٹالا ہے

موت آئے تو دن پھریں شاید
زندگی نے تو مار ڈالا ہے

شعر، نغمہ ، شگفتگی، مستی
غم کا جو روپ ہے نرالا ہے

لغزشیں مسکرائیں ہیں کیا کیا
ہوش نے جب مجھے سنبھالا ہے

دم اندھیرے میں گھٹ رہا ہے خمار
اور چاروں طرف اجالا ہے

Nazeer Akbar Aabadi ki Ghazal




عشق ميں عقل و ہوش کھونا تھا

(نظير اکبر آبادي)


عشق ميں عقل و ہوش کھونا تھا
کيجے کيا اب، ہوا جو ہونا تھا

شب کو آکر وہ پھر گيا
کيا اسي رات ہم کو سونا تھا

کھول دي چاہ ديدہ ِ تر نے
ياں نہ لازم پلک بھگونا تھا

اور جو ايسا ہي تھا تو گوہر اشک
ہٹ کے اغيار سے پرونا تھا

يا چھپانا نظيرؔ تھا بہتر
يا تعشق سے ہاتھ دھونا تھا

John Elia ... Akhlaq na bartege




اخلاق نہ برتيں گے، مدارا نہ کريں گے
(جون ايليا)

اخلاق نہ برتيں گے، مدارا نہ کريں گے
اب ہم بھي کسي شخص کي پروا نہ کريں گے

کچھ لوگ کئي لفظ غلط بول رہے ہيں
اصلاح! مگر ہم بھي اب اصلا نہ کريں گے

کم گوئي کہ اک وصف ِ حماقت ہے، بہر طور
کم گوئي کو اپنائيں گے، چہکا نہ کريں گے

اب سہل پسندي کو بنائيں گے وتيرہ
تا دير کسي باب ميں سوچا نہ کريں گے

غصہ بھي ہے تہذيب ِ تعلق کا طلب گار
ہم چپ ہيں، بھرے بيٹھے ہيں، غصہ نہ کريں گے

کل رات بہت غور کيا ہے سو ہم، اے جون!
طے کر کے اٹھے ہيں کہ تمنا نہ کريں گے

Sudarshan fikar .. Ahle Ulfat k hawalo pe hasi aati hai




اہل ِ الفت کے حوالوں پہ ہنسي آتي ہے
(ؔسدرشن فکر )

اہل  الفت کے حوالوں پہ ہنسي آتي ہے
ليلٰي مجنوں کي مثالوں پہ ہنسي آتي ہے

جب بھي تکميل ِ محبت کا خيال آتا ہے
مجھ کو اپني ہي خيالوں پہ ہنسي آتي ہے

لوگ اپنے لئے اوروں ميں وفا ڈھونڈتے ہيں
ان وفا ڈھونڈنے والوں پہ ہنسي آتي ہے

ديکھنے والو! تبسم کو کرم مت سمجھو
انہيں تو ديکھنے والوں پہ ہنسي آتي ہے

چاندني رات محبت ميں حسيں تھي، فاکر
اب تو بيمار اجالوں پہ ہنسي آتي ہے

Nida fazli .. Apni marzi se kah a




اپني مرضي سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہيں
(ندا فاضلي)

اپني مرضي سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہيں
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے، ادھر کے ہم ہيں

پہلے ہر چيز تھي اپني مگر اب لگتا ہے
اپنے ہي گھر ميں کسي دوسرے گھر کے ہم ہيں

وقت کے ساتھ ہے مٹي کا سفر صديوں سے
کس کو معلوم، کہاں کے ہيں، کدھر کے ہم ہيں

چلتے رہتے ہيں کہ چلنا ہے مسافر کا نصيب
سوچتے رہتے ہيں کس راہگذر کے ہم ہيں

گنتيوں ميں ہي گنے جاتے ہيں ہر دور ميں ہم
ہر قلمکار کي بےنام خبر کے ہم ہيں

Aslam Ansari .. Mai ne roka bhi nahi


ब्लोग्गर 
میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
(اسلم انصاری )

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں

جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں

دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شور زنجیر
اور صحرا میں کوئی نقش کف پا بھی نہیں

بے نیازی سے سبھی قریہء جاں گزرے
دیکھتا کوئی نہیں ہے کہ تماشا بھی نہیں

وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں

کس کو نیرنگی ایام کی صورت دکھلائیں
رنگ اڑتا بھی نہیں نقش ٹھہرتا بھی نہیں



Nawaz Deobandi .. Karne ko to har bat ko ham yad karenge



کرنے کو تو ہر بات کو ہم یاد کرینگے
(نوازؔ دیوبندی)
کرنے کو تو ہر بات کو ہم یاد کرینگے
پر تجھ کو بہت تیری قسم یاد کرینگے

جس سر کی تیرے شہر میں توہین ہوئی ہے
اس سر کو تیرے نقش قدم یاد کرینگے

غیروں کو تو کیا رنج میری موت کا ہوگا
احباب بھی دو چار قدم یاد کرینگے

اپنو ںکی عنایت کا یہی حال رہا ہے
ہم اپنے رقیبوں کے ستم یاد کرینگے

آ جایں گی ایک روز ہمیں راس جفایں
کچھ روز مگر تیرے ستم یاد کرینگے

تقدیر ہمیں لاکھ مسرت سے نوازے
ہم آپکے بخشے ہوئے غم یاد کرینگے


Sarwar Aalam Raaz Sarwar ki ek ghazal



غزل
(سرور عالم راز سرورؔ)

زمانہ کی ادا ہے کافرانہ
جُدا میرا ہے طرزِ عاشقانہ

ترا ذوقِ طلب نا محرمانہ
نہ آہِ صبح، نے سوزِ شبانہ

شباب و شعر و صہبائے محبت
بہت یاد آئے ہے گذرا زمانہ

"چہ نسبت خاک رابا عالم پاک"
کہاں میں اور کہاں وہ آستانہ

بہت نازک ہے ہر شاخ تمنا
بنائیں ہم کہاں پھر آشیانہ

مکاں جو ہے وہ عکس لامکاں ہے
اگر تیری نظر ہو عارفانہ

مری آہ و فغاں اک نے نوازی
مرا حرفِ شکایت شاعرانہ

میں نظریں کیا ملاتا زندگی سے
اُٹھیں، لیکن اُٹھیں وہ مجرمانہ

ہماری زندگی کیا زندگی ہے
مگر اک سانس لینے کا بہانہ

مجھے دیکھو مری حالت نہ پوچھو
مجھے آتا نہیں باتیں‌بنانا

اُلجھ کر رہ گیا میں روز و شب میں
سمجھ میں‌کب یہ آیا تانا بانا

نہ دیکھو، اس طرح مجھ کو نہ دیکھو
بکھر جاؤں گا ہوکر دانہ دانہ

مجھے ہے ہر کسو پر خود کا دھوکا
یہ دُنیا ہے کہ ہے آئینہ خانہ؟

نکالو راہ اپنی آپ سرورؔ
کبھی دُنیا کی باتوں میں نہ آنا

Noshi Geelani ki bahtreen Ghazal



ایک پشیماں سی حسرت سے مجھے سوچتا ہے

(نوشیؔ گیلانی )

اک پشیمان سی حسرت سےمُجھے سوچتا ہے
اب وُہی شہر محبت سے مُجھے سوچتا ہے

میں تو محدُود سے لمحوں میں مِلی تھی اُس سے
پھر بھی وہ کِتنی وضاحت سے مُجھے سوچتا ہے

جِس نے سوچا ہی نہ تھا ہجر کا ممکن ہونا
دُکھ میں ڈوُبی ہُوئی حیرت سے مُجھے سوچتا ہے

میں تو مَر جاؤں اگر سوچتے لگ جاؤں اُسے
اور وہ کِتنی سہُولت سے مُجھے سوچتا ہے

گرچہ اب ترکِ مراسم کو بہت دیر ہُوئی
اب بھی وہ میری اجازت سے مُجھے سوچتا ہے

کِتنا خوش فہم ہے وہ شخص کہ ہر موسم میں
اِک نئے رُخ نئی صُورت سے مُجھے سوچتا ہے

Urdu Ghazal .. M.M.Mughal



تیرگی سرِ مژگاں جگنوؤں کی آسانی
(میم۔ میم ۔ مغل)

تیرگی سرِ مژگاں جگنوؤں کی آسانی
مشکلوں سے ملتی ہے مشکلوں کی آسانی

انتظار کی شب میں صبح جاگ اٹھی ہے
شام سے خفا سی ہے دستکوں کی آسانی

ہر نفس سلگتی ہے چہرگی کو روتی ہے
آئنوں کے جنگل میں حیرتوں کی آسانی

دل سراب زار ایسا عشق میں نہیں ہوتا
تشنگی سلامت اور بارشوں کی آسانی

وصل ایک اندیشہ بُن رہا ہے مدت سے
ہجر میں یقیں کا دکھ واہموں کی آسانی

دھڑکنیں ملامت سی سانس تازیانہ سی
ایسے میں غنیمت ہے آنسوؤں کی آسانی

مطمعن نہ ہوجانا یہ سخن کا صحرا ہے
اس میں کم ہی ملتی ہے آہوؤں کی آسانی

شعر گوئی بھی محمود یار سے عبارت ہے
گر تجھے میسر ہو رتجگوں کی آسانی

Urdu Ghazal Wasi Shah..Baraha tujh se kaha tha


با رہا تجھ سے کہا تھا مجھے اپنا نہ بنا 

(وصیؔ شاہ )

بارہا تجھ سے کہا تھا مجھے اپنا نہ بنا
اب مجھے چھوڑ کے دنیا میں تماشا نہ بنا
نہ دکھا پائے گا تُو خواب میری آنکھوں کے
اب بھی کہتا ہوں مصور میرا چہرہ نہ بنا

اک یہی غم میرے مرنے کیلئے کافی ہے
جیسا تُو چاہتا تھا مجھ کو میں ویسا نہ بنا
ایک بات اور پتے کی میں بتاؤں تجھ کو
آخرت بنتی چلی جائے گی، دنیا نہ بنا
یہ خدا بن کے رعایت نہیں کرتے ہیں وصیؔ
حسن والوں کو کبھی قبلہ و کعبہ نہ بنا