Download Urdu Novels in PDF, Free Urdu Novels PDF, Peer e Kamil by Umera Ahmed,

Blog Archive

Tag

فیض احمد فیضؔ کی غزل


فیض احمد فیضؔ کی غزل

روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں

اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہِ چمن میں غزل خواں ہوئے تو  ہیں

ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پُر افشاں ہوئے تو ہیں

ان میں لُہو جلا ہو، ہمارا، کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغِ فروزاں ہوئے تو ہیں

ہاں کج کر و کلاہ کہ سب کچھ لُٹا کے ہم
اب بے نیازِ گردشِ دوراں ہوئے تو ہیں

اہلِ قفس کی صبح چمن میں کھلے گی آنکھ
بادِ صبا سے وعدہ و پیماں ہوئے تو ہیں

ہے دشت اب بھی دشت مگر خون پا سے فیضؔ
سیراب چند خارِ مغیلاں ہوئے تو ہیں

Tilok Chand mahroom ki ek ghazal



تلوک چند محرومؔ کی ایک پیاری غزل

نظر اٹھا دل ناداں یہ جستجو کیا ہے ؟
اسی کا جلوہ تو ہے اور روبرو کیا ہے ؟

کسی کی ایک نظر نے بتا دیا مجھ کو
سرورِ بادہ بے ساغر و سبو کیا ہے

قفس عذاب سہی، بلبلِ اسیر ، مگر
ذرا یہ سوچ کہ وہ دامِ رنگ و بو کیا ہے ؟

گدا نہیں ہے کہ دستِ سوال پھیلائیں
کبھی نہ آپ نے پوچھا کہ آرزو کیا ہے؟

نہ میرے اشک میں شامل نہ ان کے دامن پر
میں کیا بتاؤں انہیں ، خونں آرزو کیا ہے ؟

سخن ہو سمع خراشی تو خامشی بہتر
اثر کرے نہ جو دل پر وہ گفتگو کیا ہے؟


نریش کمار شادؔ کی غزل



نریش کمار شادؔ کی غزل

تیرا ہجر میرا نصیب ہے،تیرا غم ہی میری حیات ہے
مجھے تیری دوری کا غم ہو کیوں،تو کہیں بھی ہو میرے ساتھ ہے

میرے واسطے تیرے نام پر کوئی حرف آئے، نہیں ! نہیں!
مجھے خوف دنیا نہیں مگر ،  میرے رو برو تیری ذات ہے

تیرا وصل ائے میری دلربا  ، نہیں میری قسمت تو کیا ہوا؟
میری مہ جبیں یہ ہی کم ہے کیا، تیری حسرتوں کو تو ساتھ ہے

تیرا عشق مجھ پہ ہے مہرباں، میرے دل کو حاصل ہے دو جہاں
میری جان جاں اسی بات پر ، میری جان جائے تو بات ہے




ڈیزائنڈ غزل یہاں دیکھیے

Urdu Ghazal .. Naresh kumaar Shaad



نریش کمار شادؔ کی غزل

جب بھی اس گل بدن کی یاد آئی
ہو گئی پُر بہار تنہائی

چونک اُٹھے حادثات دنیا کے
میرے ہونٹوں پہ جب ہنسی آئی

جب کسی نے تمھارا نام لیا
جانے کیوں مجھ کو اپنی یاد آئی

دیکھ اے شیخ میرے ساغر میں
اپنی جنت کی جلوہ فرمائی

ہوش میں شادؔ جب تجھے دیکھا
تجھ میں ہم نے تیری کمی پائی

نوشی ؔ گیلانی کی ایک غزل



نوشی ؔ گیلانی کی ایک غزل

محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا
بہت آساں نہیں ہوتا جدائی مانگتے رہنا

ذرا سا عشق کر لینا،ذرا سی آنکھ بھر لینا
عوض اِس کے مگر ساری خدائی مانگتے رہنا

کبھی محروم ہونٹوں پر دعا کا حرف رکھ دینا
کبھی وحشت میں اس کی نا رسائی مانگتے رہنا

وفاں کے تسلسل سے محبت روٹھ جاتی ہے
کہانی میں ذرا سی بے وفائی مانگتے رہنا

عجب ہے وحشت ِ جاں بھی کہ عادت ہو گئی دل کی
سکوتِ شام ِ غم سے ہم نوائی مانگتے رہنا

کبھی بچے کا ننھے ہاتھ پر تتلی کے پر رکھنا
کبھی پھر اس کے رنگوں سے رہائی مانگتے رہنا

تیرے آنے کی جب خبر مہکے۔۔ نوازؔ دیوبندی



تیرے آنے کی جب خبر مہکے۔۔ نوازؔ دیوبندی

تیرے آنے کی جب خبر مہکے
تیری خوشبو سے سارا گھر مہکے

شام مہکے تیرے تصور سے
شام کے بعد پھر سحر مہکے

رات بھر سوچتا رہا تجھ کو
ذہن و دل میرے رات بھر مہکے

یاد آئے تو دل منور ہو
دید ہو جائے تو نظر مہکے

وہ گھڑی دو گھڑی جہاں بیٹھے
وہ زمیں مہکے وہ شجر مہکے

Noshi Geelani ki ek ghazal



کبھی ہم بھیگتے ہیں۔۔۔۔

نوشیؔ  گیلانی

کبھی ہم بھیگتے ہیں چاہتوں کی تیز بارش میں
کبھی برسوں نہیں ملتے کسی ہلکی سی رنجش میں

تمہی میں دیوتاؤں کی کوئی خو بو نہ تھی ورنہ
کمی کوئی نہیں تھی میرے اندازِ پرستش میں

یہ سوچ لو پھر اور بھی تنہا نہ ہو جانا
اسے چھونے کی خواہش میں اسے پانے کی خواہش میں

بہت سے زخم ہیں دل میں مگر اِک زخم ایسا ہے
جو جل اٹھتا ہے راتوں میں جو لو دیتا ہے بارش میں

کیف بھو پالی ۔ ۔ ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں





کیفؔ بھوپالی کی ایک منفرد غزل

قارئین اکرام ! آج آپ حضرات کے ساتھ ہم کیفؔ بھوپالی کی ایک بالکل منفرد انداز میں کہی ہوئی غزل شیئرکرنے جا رہے ہیں کافی عرصہ پہلے ہم نے یہ غزل اپنے بلوگنقوش سخن  کے لیے ڈیزائن کی تھی ۔
 لیکن آج ہمیں انٹرنیٹ پر تلاش کرتے ہوئے یہ غزل بعض نئے اشعار کی زیادتی کے ساتھ ملی۔ اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کے دونوں طرح سے اس غزل کو با ذوق قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے۔
سرخ رنگ میں جو غزل پیش کی گئی ہے وہ ہمیں جناب فاروق ؔارگلی کی کتاب  'کاروان غزل ' سے حاصل ہوئی ہے اور سیاہ رنگ میں پیش کی گئی غزل ہمیں انٹرنیٹ پر تلاش کے دوران ملی۔

ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں
تہمتیں، بدنامیاں، رسوائیاں

زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں، مجبوریاں، تنہائیاں

کیا زمانے میں یوں ہی کٹتی ہے رات
کروٹیں، بے تابیاں، انگڑائیاں

کیا یہی ہوتی ہےشام انتظار
آہٹیں ، گھبراہٹیں ، پرچھائیاں

میرے دل کی دھڑکنوں میں رہ گئی
چوڑیاں ، موسیقیاں ، شہنائیاں


دیدہ و دانستہ ان کے سامنے
لغزشیں، ناکامیاں، پسپائیاں


رہ گئیں اک طفل مکتب کے حضور
حکمتیں، آگاہیاں، دانائیاں

زخم دل کے پھر ہرے کرنے لگیں
بدلیاں ، برکھا رتیں ، پروائیاں


کیفؔ، پیدا کر سمندر کی طرح
وسعتیں، خاموشیاں، گہرائیاں

ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں
تہمتیں، بدنامیاں، رسوائیاں

زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں، مجبوریاں، تنہائیاں

کیا زمانے میں یوں ہی کٹتی ہے رات
کروٹیں، بے تابیاں، انگڑائیاں

کیا یہی ہوتی ہے شام انتظار
آہٹیں، گھبراہٹیں، پرچھائیاں

ایک رند مست کی ٹھوکر میں ہیں
شاہیاں، سلطانیاں، دارائیاں

رہ گئیں اک طفل مکتب کے حضور
حکمتیں، آگاہیاں، دانائیاں

ایک پیکر میں سمٹ کر رہ گئیں
خوبیاں، زیبائیاں، رعنائیاں

دیدہ و دانستہ ان کے سامنے
لغزشیں، ناکامیاں، پسپائیاں

ان سے مل کر اور بھی کچھ بڑھ گئیں
الجھنیں، فکریں، قیاس آرائیاں

چند لفظوں کے سوا کچھ بھی نہیں
نیکیاں، قربانیاں، سچائیاں

کیفؔ، پیدا کر سمندر کی طرح
وسعتیں، خاموشیاں، گہرائیاں

ایم ۔جے ۔خالد کا جدید رنگ تغزل



ایم ۔جے ۔خالد کا  جدید رنگ تغزل

نامہ بر میرے لیے ہے ڈیش ڈیش
یہ خبر میرے لیے ہی ڈیش ڈیش

گل مہر کے ہاتھ پر بیعت کروں
گل مہر میرے لیے ہے ڈیش ڈیش

جس ڈگر سے خوف کھاتا ہے جہاں
وہ ڈگر میرے لیے ہے ڈیش ڈیش

اس سفر کا منتظر تھا کب سے میں
یہ سفر میرے لیے ہے ڈیش ڈیش

جس ہنر کا وہ اڑاتا ہے مذاق
وہ ہنر میرے لیے ہے ڈیش ڈیش

Ghazal.. Diwakar Rahi



غزل

دِواکر راہیؔ (رگھبیر سرن)

کچھ آدمی سماج پہ بوجھل ہے آج بھی
رسی تو جل گئی ہے مگر بل ہے آج بھی

انسانیت کو قتل کیا جائے اس لیے
دیر و حرم کی آڑ میں مقتل ہے آج بھی

اب بھی وہی ہے رسم و روایت کی بندگی
مطلب یہ کہ ذہن مقفل ہے آج بھی

باتیں تمہاری شیخ و برہمن! خطا معاف!
پہلے کی طرح گیر مدلل ہے آج بھی

راہی! ہر ایک سمت فساد و عناد کے
چھائے ہوئے فضاؤں میں بادل ہے آج بھی 

Kaif Bhopali .. Koi aaya hai na koi aaya hoga



کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہو گا
میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہو گا

دلِ ناداں نہ دھڑک، اے دلِ ناداں نہ دھڑک
کوئی خط لے کے پڑوسی کے گھر آیا ہو گا

گُل سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو
آندھیوں تم نے درختوں کو گرایا ہو گا

کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں
اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہو گا

Faiz Ahmed Faiz.. مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نا مانگ


مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

(فیض احمد فیضؔ)

میں نے سمجھا کہ تُو ہے تَو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟

تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

اَن گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن، مگر کیا کیجیے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

ہوش ترمذی کی ایک غزل


ہوشؔ ترمذی کی ایک غزل

وہ تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا
ایک دامن بھی تو الجھا ہوا خاروں میں نہ تھا

مرنے جینے کو نہ سمجھے تو خطا کس کی ہے
کون سا حکم ہے جو ان کے اشاروں میں نہ تھا

ہر قدم خاک سے دامن کو بچایا تم نے
پھر یہ شکوہ ہے کہ میں راہگزاروں میں نہ تھا

تم سا لاکھوں میں نہ تھا، جانِ تمنا لیکن
ہم سا محروم ِ تمنا بھی ہزاروں میں نہ تھا

ہوش کرتے نہ اگر ضبطِ فغاں، کیا کرتے
پرسشِ غم کا سلیقہ بھی تو یاروں میں نہ تھا

سرور عالم راز سرورؔ کی ایک غزل


سرور عالم راز سرورؔ کی ایک غزل

آفت ہے مصیبت ہے قیامت ہے بلا ہے
یہ عشقِ ستمگار خدا جانئے کیا ہے

سب میری خطا ہے کہ زمانہ کی ہوا ہے
دل ہے کہ اسی سوچ میں دن رات لگا ہے

سایہ سا نگاہوں میں مری کوئی بسا ہے
للہ بتائے کوئی آخر کہ یہ کیا ہے

کب ہم کو ترے درد سے انکار رہا ہے
یہ غم ہی تو اک عمر کی محنت کا صلا ہے

بدلا ہے نہ بدلے گا یہ دستورِ زمانہ
ہے دشت وہی اور وہی آبلہ پا ہے

ہو جاتی ترے آنے سے تصدیقِ بہاراں
سب کہتے ہیں کہ یہ بھی تری ایک ادا ہے

یوں دل میں شش و پنج کی ہے آنکھ مچولی
جیسے کوئی چھپ چھپ کے مجھے دیکھ رہا ہے

تم یوں نہ کرو سرورِؔ ناکام سے نفرت
ہے کچھ سے تو اچھا جو یہ لاکھوں سے برا ہے

محسن نقوی کی ایک پیاری غزل



محسن ؔ نقوی کی ایک پیاری غزل

انکار کیا کرے گی ہوا میرے سامنے
گھر کا ہر اک چراغ بجھا میرے سامنے

یاد آ نہ جائے مقتل یاراں کی رات پھر
نیزے پہ کوئی سر نہ سجا میرے سامنے

اس کے خلوص میں بھی ضرورت کا رنگ تھا
وہ دے رہا تھا مجھ کو دعا میرے سامنے

مجھ سے بچھڑ کے خط میں لکھی اس نے دل کی بات
کیوں اس کو حوصلہ نہ ہوا میرے سامنے

میرے لہو سے تیرا لبادہ بھی تر ہوا
اب میرا سوگ تو نہ منا میرے سامنے

دل پر ہے نقش لطف عزیزاں کا سلسلہ
سب پر کرم وہ میرے سوا میرے سامنے

وہ جھوٹ ہی سہی مجھے یوں بھی عزیز ہے
کہنا تھا جو بھی،اس نے کہا میرے سامنے

جیسے میں آشنائے چمن ہی نہ تھا کبھی
گزری ہے یوں بھی آج صبا میرے سامنے

وہ لمحہ نزول قیامت سہی مگر
اک دن تو آئے میرا خدا میرے سامنے

کل تک وہ آئینے سے بھی نازک مزاج تھا
محسنؔ وہ شخص ٹوٹ گیا میرے سامنے

Fakhera Batool ki ek khoobsurat ghazal



فاخرہ بتولؔ کا دلکش انداز

بنیاد ہل گئی تو مکاں بن کے مٹ گیا
اس بار بھی یقین گماں بن کے مٹ گیا

تعبیر راکھ بن کے اڑی آنکھ میں سدا
جو خواب تھا وہ پل میں دھواں بن کے مٹ گیا

بازی پھر اب کی بار مقدر نے جیت لی
پھر چاہتوں کا ایک جہاں بن کے مٹ گیا

اک دائمی کسک سی جگر میں اتر گئی
اور زخم سرمئی سا نشاں بن کے مٹ گیا

ہے لازوال کربِ مسلسل کا نام ہجر
اور یہ وصال آہ و فغاں بن کے مٹ گیا

بکھری ہوئی ہیں چاروں طرف دل کی کرچیاں
لگتا ہے ایک گھر سا یہاں بن کے مٹ گیا

جذبہ بنا گلاب تو قائم رہا بتولؔ
جوں ہی بنا یہ تیرکماں، بن کے مٹ گیا

Daagh Dahelwi ki Ghazal



داغ ؔدہلوی کی ایک غزل

خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

دل لے کے مفت کہتے ہیں کہ کام کا نہیں
اُلٹی شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا

دیکھا ہے بُت کدے میں جو اے شیخ! کچھ نہ پوچھ
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا

افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا

گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا

بزمِ عدو میں صورتِ پروانہ دل مرا
گو رشک سے جلا ، تیرے قربان تو گیا

ہوش و ہواس و تاب و تواں داغؔجا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں، سامان تو گیا

Mohsin Naqwi ki Bahtreen ghazal



محسن ؔ نقوی کی بہترین غزل

اب وہ طوفان ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا
دل کا عالم ہے تیرے بعد خلاؤں جیسا

کاش دنیا میرے احساس کو واپس کر دے
خامشی کا وہی انداز،صداؤں جیسا

پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا
اس کا انداز تغافل تھا خداؤں جیسا

کتنی شدت سے بہاروں کو تھا احساس مآل
پھول کھل کر بھی لگا زرد خزاؤں جیسا

کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے
جس کا انداز سخن بھی ہو گداؤں جیسا

پھر تیری یاد کے موسم نے جگائے محشر
پھر میرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا

بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسامحسنؔ
اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا