Download Urdu Novels in PDF, Free Urdu Novels PDF, Peer e Kamil by Umera Ahmed,

Tag

مجروحؔ سلطان پوری کی ایک غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔



مجروحؔ سلطان پوری کی ایک  غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔

ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح

اس کوۓ تشنگی میں بہت ہےکہ ایک جام
ہاتھ آ گیا ہے دولت بیدار کی طرح

وہ تو کہیں ہے اور مگر دل کے آس پاس
پھرتی ہے کوئی شۓ نگہ یار کی طرح

سیدھی ہے راہ شوق ، پہ یونہی کہیں کہیں
خم ہو گئی ہے گیسوۓ دل دار کی طرح

بے تیشئہ نظر نہ چلو راہ رفتگان
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح

اب جا کے کچھ کھلا ہنر ناخن جنوں
زخم جگر ہوئے لب و رخسار کی طرح

مجروحؔ لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوۓ ہیں گنہگار کی طرح


سیماب اکبر آبادی کے دور آخر کی ایک غزل




غزل

سیماب اکبرآبادی

رہیں گے چل کے کہیں اوراگر یہاں نہ رہے
بَلا سے اپنی  جو آباد گُلِسْتان نہ رہے

ہم ایک لمحہ بھی خوش زیرِ آسماں نہ رہے
غنیمت اِس کوسَمَجْھیے کہ جاوِداں نہ رہے

ہمیں تو خود چَمن آرائی کا سلیقہ ہے
جو ہم رہے توگُلِسْتاں میں باغباں نہ رہے



شباب نام ہے دل کی شگفتہ کاری کا
وہ کیا جوان رہے جس کا دل جواں نہ رہے

حرم میں، دَیروکلیسا میں، خانقاہوں میں
ہمارے عشق کے چرچے کہاں کہاں نہ رہے

کبھی کبھی، رہی وابستگی قفس سے بھی
رہے چمن میں تو پابندِ آشیاں نہ رہے

فضائے گل ہے نظرکش و مَن ہے دامن کش
کہاں رہے تِرا آوارہ سر، کہاں نہ رہے

بہار جن کے تبسّم میں مُسکراتی تھی
وہ گُلِسْتاں  وہ جوانانِ گُلِسْتاں نہ رہے

خدا کے جاننے والے تو خیر کچھ تھے بھی
خدا کے ماننے والے بھی اب یہاں نہ رہے

ہمیں قفس سے کریں یاد پھر چمن والے
جب اور کوئی ہوا خواہِ آشیاں نہ رہے

کِیا بھی سجدہ تو دل سے کِیا نظر سے کِیا
خدا کا شُکر کہ ہم بارِ آستاں نہ رہے

ہےعصرِنَو سے یہ اِک شرط انقلاب کے بعد
ہم اب رہیں جو زمیں پر تو آسماں نہ رہے

برائے راست تعلّق تھا جن کا منزل سے
وہ راستے نہ رہے اب وہ کارواں نہ رہے

ہَمِیں خرابِ ضعیفی نہیں ہوئے سیماب
ہمارے وقت کے اکثر حَسِیں جواں نہ رہے

علامہ اقبال کی ایک غزل



غزل علامہ اقبالؔ

ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام، وائے تمنائے خام!

پیر حرم نے کہا سن کے مری روئداد
پختہ ہے تیری فغاں، اب نہ اسے دل میں تھام

تھا اَرِنی گو کلیم، میں اَرِنی گو نہیں
اس کو تقاضا روا، مجھ پہ تقاضا حرام

گرچہ ہے افشائے راز، اہل نظر کی فغاں
ہو نہیں سکتا کبھی شیوۂ رندانہ عام


حلقۂ صوفی میں ذکر، بے نم و بے سوز و ساز
میں بھی رہا تشنہ کام، تو بھی رہا تشنہ کام

عشق تری انتہا، عشق مری انتہا
تو بھی ابھی ناتمام، میں بھی ابھی ناتمام

آہ کہ کھویا گیا تجھ سے فقیری کا راز
ورنہ ہے مال فقیر سلطنت روم و شام


ساغر صدیقی : جب گلستاں میں بہاروں کے قدم آتے ہیں



ساغر صدیقی کی ایک زبردست غزل


جب گلستاں میں بہاروں کے قدم آتے ہیں
یاد بُھولے ہوئے یاروں کے کرم آتے ہیں

لوگ جس بزم میں آتے ہیں ستارے لے کر
ہم اسی بزم میں بادیدئہ نم آتے ہیں

میں وہ اِک رندِ خرابات ہُوں میخانے میں
میرے سجدے کے لیے ساغرِ جم آتے ہیں

اب مُلاقات میں وہ گرمی جذبات کہاں
اب تو رکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں

قُربِ ساقی کی وضاحت تو بڑی مشکل ہے
ایسے لمحے تھے جو تقدیر سے کم آتے ہیں

میں بھی جنت سے نکالا ہُوا اِک بُت ہی تو ہُوں
ذوقِ تخلیق تجھے کیسے ستم آتے ہیں

چشم ساغرؔ ہے عبادت کے تصوّر میں سدا
دل کے کعبے میں خیالوں کے صنم آتے ہیں

اعتبار ساجد کی ایک عمدہ غزل




تیری رحمتوں کے دیار میں تیرے بادلوں کو پتا نہیں
ابھی آگ سرد ہوئی نہیں ابھی اِک الاؤ جلا نہیں

میری بزمِ دِل تو اُجڑ چُکی، مِرا فرشِ جاں تو سِمٹ چُکا
سبھی جا چُکے مِرے ہم نشِیں مگر ایک شخص گیا نہیں

در و بام سب نے سجا لیے، سبھی رَوشنی میں نہا لیے
مِری اُنگلِیاں بھی جھُلس گئیں مگر اِک چراغ جلا نہیں

غمِ زِندگی!  تِری راہ میں، شبِ آرزُو! تِری چاہ میں
جو اُجڑ گیا وہ بسا نہیں، جو بِچھڑ گیا وہ مِلا نہیں

جو دِل و نظر کا سُرُور تھا میرے پاس رہ کے بھی دُور تھا
وہی ایک گُلاب اُمید کا میری شاخِ جاں پہ کھِلا نہیں

پسِ کارواں سرِ رہگُزر میں شِکستہ پا ہُوں تو اِس لیے
کہ قدم تو سب سے مِلا لیے میرا دل کِسی سے مِلا نہیں

میرا ہمسفر جو عجِیب ہے تو عجِیب تر ہُوں مَیں آپ بھی
مُجھے منزِلوں کی خبر نہیں، اُسے راستوں کا پتہ نہیں

کفیل آزر ۔ ۔ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائیگی۔


کفیل آزر

بات نکلے گی تو پھر دُور تَلَک جائے گی
لوگ بے وجہ اُداسی کا سبب پوچھیں گے
یہ بھی پوچھیں گے کہ تُم اتنی پریشاں کیوں ہو؟
اُنگلیاں اُٹھیں گی سُوکھے ہوئے بالوں کی طرف!
اِک نظر دیکھیں گے گُزرے ہوئے سالوں کی طرف!
چُوڑیوں پر بھی کئی طنز کئے جائیں گے
کانپتے ہاتھوں پہ بھی فقرے کسے جائیں گے
لوگ ظالِم ہیں ہر اِک بات کا طعنہ دیں گے
باتوں باتوں میں میرا ذِکر بھی لے آئیں گے
اُن کی باتوں کا ذرا سا بھی اثر مت لینا
ورنہ چہرے کہ تاثُّر سے سمجھ جائیں گے
چاہے کچھ بھی ہو سوالات نہ کرنا اُن سے
میرے بارے میں کوئی بات نہ کرنا اُن سے
بات نکلے گی تو پھر دُور تَلَک جائے گی


گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے


ایک شعر ضرب المثل بن کر ہمیشہ میرے کانوں سے ٹکراتا رہتا تھا 

گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے

لیکن اِتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

آج سرفنگ کرتے ہوئے مجھے پوری غزل دستیاب ہوئی تو اس غزل کو بہترین انداز میں ڈیزائن بھی کیا اور سوچا آپ حضرات کے ساتھ شیئر کروں۔


گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے

خاطر ؔغزنوی

گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اِتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

میں اِسے شُہرت کہوں یا اپنی رُسوائی کہوں
مُجھ سے پہلے اُس گلی میں میرے افسانے گئے

وحشتیں کُچھ اِس قدر اپنا مُقدّر ہوگئیں
ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ وِیرانے گئے

یُوں تو وہ میری رگِ جاں سے بھی تھے نزدِیک تر
آنسُوؤں کی دھُند میں لیکِن نہ پہچانے گئے

اب بھی اُن یادوں کی خوشبو ذہن میں محفُوظ ہے
بارہا ہم جِن سے گُلزاروں کو مہکانے گئے

کیا قیامت ہے کہ خاطرؔ  کُشتۂ شب ہم ہی تھے
صُبح جب آئی تو مُجرِم ہم ہی گردانے گئے


اس طرح کی اور بھی بہت ساری نادر غزلیات مندرجہ ذیل ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔





میں تجھے بھولنا چاہوں بھی تو ناممکن ہے




غزل

اطہر ناسک

میں تجھے بھولنا چاہوں بھی تو ناممکن ہے
تو میری پہلی محبت ہے مرا محسن ہے

میں اسے صبح نہ جانوں جو ترے سنگ نہیں
میں اسے شام نہ مانوں کہ جو ترے بن ہے

کیسا منظر ہے ترے ہجر کے پس منظر کا
ریگِ صحرا ہے رواں اور ہوا ساکن ہے

تیری آنکھوں سے تری باتوں سے لگتا تو نہیں
مرے احباب یہ کہتے ہیں کہ تو کم سن ہے

ابھی کچھ دیر میں ہو جائے گا آنگن جل تھل
ابھی آغاز ہے بارش کا ابھی کِن مِن ہے

عین ممکن ہے کہ کل وقت فقط مرا ہو
آج مٹھی میں یہ آیا ہوا پہلا دن ہے

آج کا دن تو بہت خیر سے گزرا ناسک
کل کی کیوں فکر کروں کل کا خدا ضامن ہے


کمالِ ضبط کو میں خود بھی تو آزماؤں گی





کمالِ ضبط کو میں خود بھی تو آزماؤں گی
پروین شاکر

کمالِ ضبط کو میں خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سےاس کی دلہن سجاؤں گی

سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی

بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا
میں دل میں روؤں گی، آنکھوں میں مسکراؤں گی

وہ کیا گیا رفاقت کے سارے لطف گئے
میں کس سے روٹھ سکوں گی، کسے مناؤں گی

اب اُس کا فن تو کسی اور سے ہوا منسوب
میں کس کی نظم اکیلے میں گُنگناؤں گی

وہ ایک رشتہ بے نام بھی نہیں لیکن
میں اب بھی اس کے اشاروں پہ سر جھکاؤں گی

بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود
وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی

سماعتوں میں اب جنگلوں کی سانسیں ہیں
میں اب کبھی تری آواز سُن نہ پاؤں گی

جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محّبت کا
وہ کہہ رہا تھا کہ میں اُس کو بھول جاؤں گی

پروین شاکر کی ایک غزل



پروین شاکر کی ایک غزل

چاند میری طرح پگھلتا رہا
نیند میں ساری رات چلتا رہا

جانے کس دکھ سے دل گرفتہ تھا
مُنہ پہ بادل کی راکھ ملتارہا

میں تو پاؤں کے کانٹے چُنتی تھی
اور وہ راستہ بدلتا رہا

رات گلیوں میں جب بھٹکتی تھی
کوئی تو تھا جا ساتھ چلتا رہا

موسمی بیل تھی مَیں،سوکھ گئی
وہ تناور درخت ،پھلتا رہا

سَرد رُت میں،مسافروں کے لیے
پیڑ، بن کر الاؤ جلتا رہا

دل، مرے تن کا پھول سا بچہ
پتھروں کے نگر میں پلتا رہا

نیند ہی نیند میں کھلونے لیے
خواب ہی خواب میں بہلتا رہا