Download Urdu Novels in PDF, Free Urdu Novels PDF, Peer e Kamil by Umera Ahmed,

Blog Archive

Tag

Ghazal by Dr Javed jameel | ڈاکٹر جاوید جمیل کی ایک تازہ غزل



غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل

نہ ملا  کبھی کسی سے اسے دیوتا سمجھ کر
بھلا کیسے پوجتا پھر میں اسے خدا سمجھ کر

میں یہ چاہتا ہوں مجھ سے وہ ملے تو دوست بن کے
نہ بڑا سمجھ کے خود کو،  نہ مجھے بڑا سمجھ کر

کوئی انکو یہ بتا دے مرے منہ میں بھی زباں ہے
وہ ستم کریں گے کب تک مجھے بے نوا سمجھ کر

کئے فیصلے ہمیشہ ترے رخ کو دیکھ کر ہی
کبھی باوفا سمجھ کر، کبھی بے وفا سمجھ کر

ترا غم اٹھا رہا ہوں، ترا درد سہہ رہا ہوں
مری بندگی سی الفت کی حسیں جزا سمجھ کر

مرے عشق کو مقدر درجات دے رہا ہے
کبھی ابتدا سمجھ کر، کبھی انتہا سمجھ کر

کوئی حکم دوں اسے میں یہ نہیں مقام میرا
مری بات کاش مانے مری التجا سمجھ کر

مری باطنی حقیقت انھیں کیا دکھائی دے گی
جو مجھے ستا رہے ہیں کوئی سر پھرا سمجھ کر

 وہ زوال_ آدمیت کی ہے شاہراہ جاوید
ہے زمانہ جس کا راہی رہ_ ارتقا سمجھ کر

Munawwar Rana`s Ghazal | غزلِ منور رانا


جب بھی دیکھا مرے کردار  پہ دھبا کوئی
دیر تک بیٹھ کے تنہائی میں رویا کوئی

لوگ ماضی کا بھی اندازہ لگا لیتے ہیں
مجھ کو تو یاد نہیں کل کا بھی قصہ کوئی

بے سبب آنکھ میں آنسو نہیں آیا کرتے
آپ سے ہوگا یقیناً  مرا رشتہ کوئی

یاد آنے لگا ایک دوست کا برتاؤ مجھے
ٹوٹ کر گر پڑا جب شاخ سے پتّہ کوئی

بعد میں ساتھ نبھانے کی قسم کھا لینا
دیکھ لو جلتا ہوا پہلے پتنگا کوئی

اس کو کچھ دیر سنا لیتا ہوں رودادِ سفر
راہ میں جب کبھی مل جاتا ہے اپنا کوئی

کیسے سمجھیگا بچھڑنا وہ کسی کا رانا
ٹوٹتے دیکھا نہیں جس نے ستارہ کوئی

غزل حسین باندی شباب بنارسی


 غزل
 حسین باندی شباب بنارسی

مے کشی کا لطف تنہائی میں کیا، کچھ بھی نہیں
یار پہلو میں نہ ہو جب تک، مزا کچھ بھی نہیں

تم رہو پہلو میں میرے، میں تمہیں دیکھا کروں
حسرتِ دل اے صنم، اِس کے سوا کچھ بھی نہیں

حضرتِ دل کی بدولت میری رسوائی ہوئی
اس کا شکوہ آپ سے اے دلربا کچھ بھی نہیں

قسمتِ بد دیکھئے، پُوچھا جو اُس نے حالِ دل
باندھ کے ہاتھوں کومیں نے کہہ دیا، کچھ بھی نہیں 

آپ ہی تو چھیڑ کرپُوچھا ہمارا حالِ دل
بولے پھرمنھ پھیرکے، ہم نے سُنا کچھ بھی نہیں

کوچہؑ الفت میں انساں دیکھ کے رکھے قدم
ابتدا اچھی ہے اِس کی، انتہا کچھ بھی نہیں

حسین باندی شباب بنارسی

غزل ناصر کاظمی | Ghazal by Nasir Kazmi


غزلِ
ناصر کاظمی 

ترے خیال سے لَو دے اٹھی ہے تنہائی
 شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی

تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
 اُنھیں بھی دیکھ جِنھیں راستے میں نیند آئی

پُکار اے جرسِ کاروانِ صبحِ طرب
 بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی

ٹھہر گئے ہیں سرِ راہ خاک اُڑانے کو
 مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی

رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لئے
 یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی

یہ سانحہ بھی محبّت میں بارہا گزرا
 کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

دلِ فسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اُٹھا
 یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی

میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا
 تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی

جہاں بھی تھا کوئی فتنہ تڑپ کے جاگ اُٹھا
 تمام ہوش تھی مستی میں تیری انگڑائی

کھُلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
 وہ لوگ تھے، نہ وہ جلسے، نہ شہرِ رعنائی

وہ تابِ درد وہ سودائے انتظار کہاں
 اُنہی کے ساتھ گئی طاقتِ شکیبائی

پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
 بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی

ساحر لدھیانوی | Sahir ludhyanwi`s Ghazal


خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے

ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے

ٹوٹا طلسمِ عہد محبّت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے

ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کرسکے

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کرسکے

مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کر سکے

غزل محسن نقوی



غزل 
======
محسن نقوی 
---------------------

وفا میں اب یہ ہنر اختیار کر نا ہے 
وہ سچ کہے نہ کہے ، اعتبار کرنا ہے 

یہ تجھ  کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہوا
مجھے تو خیر ترا انتظار کرنا ہے 

ہوا کی زد میں جلانے ہیں آنسووں کے چراغ 
کبھی یہ جشن سر_ راہ گزار کرنا ہے 

مثال _شاخ _برہنہ ، خزاں کی رت میں کبھی 
خود اپنے جسم کو بے برگ و بار کرنا ہے 

تیرے فراق میں دن کس طرح کٹیں اپنے 
کہ شغل _شب تو ستارے شمار کرنا ہے 

کبھی تو دل میں چھپے زخم بھی نمایاں ہوں 
قبا سمجھ کے بدن تار تار کرنا ہے 

خدا خبر یہ کوئی  ضد کہ شوق ہے محسن 
خود اپنی جان کے دشمن سے پیار کرنا ہے

مزاحیہ غزل ڈاکٹر فریاد آزرؔ


مزاحیہ غزل

ڈاکٹر فریاد آزرؔ 

(روحِ احمد فراز سے معذرت کے ساتھ)

’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘
سو ہم بھی آج یہی کام کر کے دیکھتے ہیں

ہے شوق اس کو موبائل سے بات کرنے کا
سو ہم بھی چار چھ مِس کا ل کر کے دیکھتے ہیں

جن عاشقوں کو بڑھاپہ کی پونچھ اگنے لگی
سنا ہے وہ بھی اسے دم کتر کے دیکھتے ہیں

بس اس لئے کہ اسے پھر نظر نہ لگ جائے
لگا کے سب اسے چشمے نظر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بالوں سے اس کو بڑی محبت ہے
تمام گنجے اسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سدھار پائے نہ جن کو پولس کے ڈنڈے بھی
وہی موالی اسے خود سدھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو امیر زادوں سے
سو آج ہم بھی اسے جیب بھر کے دیکھتے ہیں

وہ بالکونی میں آئے تو بھیڑ لگ جائے
رقیب ایسے میں جیبیں کتر کے دیکھتے ہیں

سڑک سے گزرے تو ٹریفک بھی جام ہو جائے
کہ اہلِ کار بھی اس کو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

مجھے بھی آج کسی پار لر میں لے چلئے
اسے رقیب بہت بن سنور کے دیکھتے ہیں

ہماری بات ہوئی تھی نہ دیکھنے کی اسے
ہم اپنی بات سے پھر بھی مکر کے دیکھتے ہیں

مشاعروں کے لئے چاہئے غزل ا س کو
یہی ہے مانگ تو پھر مانگ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے شوق ہے تیمار داریوں کا اسے
سو اپنے آپ کو بیمار کر کے دیکھتے ہیں

سنا گیا ہے کہ مردہ پرست ہے وہ بھی
تو جھوٹ موٹ کا پھر ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے لی ’جوڈو‘ کی تربیت اس نے
رقیب دور سے ہی اس کو ڈر کے دیکھتے ہیں

مکان اس کا ہے سرحد کے اس طرف لیکن
ادھر کے لوگ بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

’فرازؔ تم کو نہ آئیں محبتیں کرنی‘
سو اس گلی سے اب آزر ؔ گزر کے دیکھتے ہیں

ڈاکٹر فریاد آزر کی ایک غزل


آزما کر عالمِ ابلیس کے حربے جدید
ہوگئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید


ننھا کمپیوٹر، قلم، کاغذ، کتابوں کی جگہ
اس قدر سوچا نہ تھا ہو جائیں گے بچے جدید


دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِقدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید


ہو گیا محروم بینائی سے بھی اب آخرش
دیکھتا تھا رات دن وہ آدمی سپنے جدید


دادی اور نانی کے قصّوں میں مزہ اتا نہیں
اب سناتے ہیں مرے بچّے انھیں قصّے جدید


کیوں نہیں لے جاتی اب وحشت بھی صحرا کی طرف
بن گیا کیوں شہر از خود آج صحرائے جدید


سب سنائی دیتا ہے آزرؔ اذانوں کے سوا
محوِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدی

اصغر گونڈوی کی ایک غزل




افتادگانِ عشق نے سَر اَب تو رکھ دیا
اٹھیں گے بھی تو نقشِ کفِ پا لئے ہوئے

رگ رگ میں اور کچھ نہ رہا جُز خیالِ دوست
اس شوخ کو ہوں آج سراپا لئے ہوئے

دل مبتلا و مائلِ تمکینِ اِتّقا!
جامِ شرابِ نرگسِ رسوا لئے ہوئے

سرمایہ حیات ہے حرمانِ عاشقی
ہے ساتھ ایک صورتِ زیبا لئے ہوئے

جوشِ جنوں میں چھوٹ گیا آستانِ یار
روتے ہیں‌منہ پہ دامنِ صحرا لئے ہوئے

اصغر ہجومِ دردِ غریبی میں اُس کی یاد
آئی ہے اِک طلسمِ تمنّا لئے ہوئے

حسن عباسی کی ایک غزل


 
حسن عباسی کی ایک غزل

مرتی ہوئی زمیں کو بچانا پڑا مجھے
بادل کی طرح دشت میں آنا پڑا مجھے

وہ کر نہیں‌ رہا تھا مری بات کا یقیں
پھر یوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے

بھولے سے میری سمت کوئی دیکھتا نہ تھا
چہرے پہ ایک زخم لگانا پڑا مجھے

اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے

یادیں تھیں دفن ایسی کہ بعد از فروخت بھی
اس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے

اس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار
کل آئینے پہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے

ایسے بچھڑ کے اس نے تو مر جانا تھا حسن
اس کی نظر میں خود کو گرانا پڑا مجھے

--

غزل پروفیسر اقبال عظیم




                                                                                                                    غزل                                                               
========
پروفیسر  اقبال عظیم
----------------------------

غلط معانی  دئیے جاتے ہیں زیرلب تبسم  کو
سمجھ پاۓ نہ اب  تک  لوگ اس خاموش قلزم کو

بڑا  دھوکہ دیا ہم کو ہماری خوش خیالی نے
نہ جانے کیا سمجھ بیٹھے نگاہوں کے تصادم کو

محبت میں خطائیں ایک جانب سے نہیں ہوتیں
نہ تم الزام دو ہمکو ، نہ ہم الزام دیں تم کو

زباں خاموش ،ماتھے پر شکن ، آنکھوں میں افسانے
کوئی سمجھاۓ کیا کہتے ہیں اس طرز تکّلم کو

تمھیں ناراض ہونے کا سلیقہ بھی نہیں آتا
شکن ماتھے پی ڈالو ،اور روکو اس تبسم کو

زمانہ ہو گیا اقبال ہم اک ساتھ رہتے ہیں
تعجب ہے سمجھ پاے نہ تم ہمکو ، نہ ہم تم کو
------------------------------
مرسلہ ----سعود صدیقی


.

بیٹھا ہوں تری خاطر الفت کے ذخیروں پر


غزل

از ڈاکٹر جاوید جمیل

 

الطاف کی بارش ہے گمراہ شریروں پر

طوفاں ہیں مصائب کے نیکی کے سفیروں پر

 

جب زیست میں آئے گا، دیکھے گا تعجب سے

بیٹھا ہوں تری خاطر الفت کے ذخیروں پر

 

رہتا ہوں تخیل میں سائے میں ستاروں کے

لکھی ہے مری قسمت شنبنم کی لکیروں پر

 

بے نام غریبوں کی پروا ہے یہاں کس کو

انعام برستے ہیں بد نام امیروں پر

 

منزل ہے فقط انکی خود اپنی ہوس پرسی

پھر کیسے بھروسہ ہو ان جیسے مشیروں پر

 

شیطاں کے وساوس سے کس طرح بچا جائے

اک بار مسلسل ہے لاچار ضمیروں پر

 

اے وقت! تمنا ہے ہم کو بھی اسی پل کی

کب ابر کرم برسے ہم ایسے حقیروں پر

 

اک جہد مسلسل ہو میدان حقیقت میں

کیوں پھرتے ہیں آوارہ خوابوں کے جزیروں پر

 

ہشیار تھے دشمن سے، سوچا نہ تھا یہ لیکن

"جاوید" لکھا ہوگا احباب کے تیروں پر

 

تمام شُد - محسن نقوی



وہ درد، وہ وفا، وہ محبت تمام شُد
لے! دل میں ترے قرب کی حسرت تمام شُد

یہ بعد میں کُھلے گا کہ کس کس کا خُون ہوا
ہر اِک بیاں ختم، عدالت تمام شُد

تُو اب تو دشمنی کے بھی قابل نہیں رہا
اُٹھتی تھی جو کبھی وہ عداوت تمام شُد

اب ربط اک نیا مجھے آوارگی سے ہے
پابندیء خیال کی عادت تمام شُد

جائز تھی یا نہیں، ترے حق میں تھی مگر
کرتا تھا جو کبھی وہ وکالت تمام شُد

وہ روز روز مرنے کا قصہ ہوا تمام
وہ روز دِل کو چِیرتی وحشت تمام شُد

محسن میں کُنجِ زیست میں چُپ ہوں پڑا
مجنُوں سی وہ خصلت و حالت تمام شُد

محسن نقوی

کبھی یاد آؤ تو اس طرح.. محسن نقوی



کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو
تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں

کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑ ہے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
مرا درد پھر سے غزل بنے
کبھی گنگناؤ تو اس طرح
مرے زخم پھر سے گلاب ہوں

کبھی مسکراؤ تو اس طرح
مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں
کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو
نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو
یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو
نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں

کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں
کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!

( محسن نقوی )

 

تمہیں کیسے بتائیں ہم -سلیم کوثر


 

تمہیں کیسے بتائیں ہم

محبت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا

کہانی میں

تو ہم واپس بھی آتے ہیں

محبت میں پلٹنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا

ذرا سوچو!

کہیں دل میں خراشیں ڈالتی یادوں کی سفاکی

کہیں دامن سے لپٹی ہے کسی بھولی ہوئی

ساعت کی نم ناکی

کہیں آنکھوں کے خیموں میں

خراغِ خواب گل کرنے کی سازش کو

ہوادیتی ہوئی راتوں کی چالاکی

مگر میں بندہ خاکی

نہ جانے کتنے فرعونوں سے اُلجھی ہے

مرے لہجے کی بے باکی

مجھے دیکھو

مرے چہرے پہ کتنے موسوں کی گرد

اور اس گرد کی تہہ میں

سمے ی دھوپ میں رکھا اک آئینہ

اور آئینے میں تاحد نظر پھیلے

محبت کے ستارے عکس بن کر جھلملاتے ہیں

نئی دنیاؤں کا رستہ بتاتے ہیں

اسی منظر میں آئینے سے الجھی کچھ لکیریں ہیں

لکیروں میں کہانی ہے

کہانی اور محبت میں ازل سے جنگ جاری ہے

محبت میں اک ایسا موڑ آتا ہے

جہاں آکر کہانی ہار جاتی ہے

کہانی میں کچھ کردار ہم خود فرض کرتے ہیں

محبت میں کوئی کردار بھی فرضی نہیں ہوتا

کہانی میں کئی کردار

زندہ ہی نہیں رہتے

محبت اپنے کرداروں کو مرنے ہی نہیں دیتی

کہانی کے سفر میں

منظروں کی دھول اڑتی ہے

محبت کی مسافر راہ گیروں کو بکھرنے ہی نہیں دیتی

محبت اک شجر ہے

اور شجر کو اس سے کیا مطلب

کہ اس کے سائے میں جو بھی تھکا ہارا مسافر آکے بیٹھا ہے

اب اس کی نسل کیا ہے دنگ کیسا ہے

کہاں سے آیا ہے

کس سمت جانا ہے

شجر کا کام تو بس چھاؤں دینا ہے

دھوپ سہنا ہے

اسے اس سے غرض کیا ہے

پڑاؤ ڈالنے والوں میں کس نے

چھاؤں کی تقسیم کا جھگڑا اُٹھا یا ہے

کہاں کس عہد کو توڑا کہاں وعدہ نبھایا ہے

مگر ہم جانتے ہیں

چھاؤں جب تقسیم ہوجائے

تو اکثر دھوپ کے نیزے

رگ و پے میں اترتے ہیں

اور اس کے زخم خوردہ لوگ

 

جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔

 

سلیم کوثر

کامران اسیر ساگر کی ایک بہترین غزل


 

قدیم تخت پہ لکھیں روایتیں پڑھ کر

شجر بھی رات کو روتے ہیں آیتیں پڑھ کر

 

چراغ بام پہ اوندھے پڑے ہوئے ہیں یہاں

ہوا بھی چیخ رہی ہے عبارتیں پڑھ کر

 

تمام خواب حقیقت پہ کھل رہے ہیں ابھی

کوئی جواب نہیں ہے شکایتیں پڑھ کر

 

کوئی وجود میسر نہیں ابھی مجھکو

بھٹک رہا ہوں میں دنیا کی نسبتیں پڑھ کر

 

 

قدم قدم پہ اذیت کا رقص جاری ہے

بتا یہ خواب کی تعبیر وحشتیں پڑھ کر

 

میں خواب خواب سجاتا ہوں وقت کا سینہ

گزشتہ قوم پہ گزری حکایتیں پڑھ کر

 

ستارے آن گرے خواب گاہ میں ساگر

سو آگئی ہے قیامت، قیامتیں پڑھ کر

 

 

کامران اسیر ساگر

غزل امجد اسلام امجد


 

نہ ربط ہے نہ معانی ، کہیں تو کس سے کہیں!

ہم اپنے غم کی کہانی ، کہیں تو کس سے کہیں!

 

سلیں ہیں برف کی سینوں میں اب دلوں کی جگہ

یہ سوزِ دردِ نہانی کہیں تو کس سے کہیں!

 

نہیں ہے اہلِ جہاں کو خود اپنے غم سے فراغ

ہم اپنے دل کی گرانی کہیں  تو کس سے کہیں!

 

پلٹ رہے ہیں پرندے بہار سے پہلے

عجیب ہے یہ نشانی کہیں تو کس سے کہیں!

 

نئے سُخن کی طلب گار ہے نئی دُنیا

وہ ایک بات پرانی کہیں تو کس سے کہیں

 

نہ کوئی سُنتا ہے امجدؔ نہ مانتا ہے اسے

حدیثِ شامِ جوانی کہیں تو کس سے کہیں!

 

 

 

غزل فیض احمد فیض


 

شہر میں‌ چاک گریباں ہوئے ناپید اب کے

کوئی کرتا ہی نہیں ضبط کی تاکید اب کے

 

لطف کر، اے نگہِ یار ، کہ غم والوں‌ نے

حسرتِ دل کی اُٹھائی نہیں‌تمہید اب کے

 

چاند دیکھا تری آنکھوں میں ، نہ ہونٹوں پہ شفق

ملتی جلتی ہے شبِ غم سے تری دید اب کے

 

دل دکھا ہے نہ وہ پہلا سا، نہ جاں تڑپی ہے

ہم ہی غافل تھے کہ آئی ہی نہیں عید اب کے

 

پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں‌ جو ہوا تیز چلی

لا کے رکھو سرِ محفل کوئی خورشید اب کے

 

-- فیض احمد فیض

افتخار راغب کی ایک غزل


 

ایک غزل آپ سب کی نذر براے تنقید و تبصرہ

والسلام

افتخار راغبؔ

دوحہ قطر

غزل

چاہوں کہ ہمیشہ میں زمانے کی دعا لوں
سوچوں کہ درختوں کی طرح خود کو بنا لوں

اے میری جھجک ساتھ مِرا چھوڑ دے ورنہ
ڈر ہے کہ کسی روز تجھے مار نہ ڈالوں

کس روز نظر آئے گا تعبیر کا جگنو
کب تک میں تِرے خواب کو آنکھوں میں سنبھالوں

کیا درد کی لذّت سے شناسائی ہوئی ہے
ہر درد کو جی چاہے کہ سینے سے لگا لوں

جو موجبِ نقصان کسی کے لیے ٹھہرے
مر جاؤں مگر ایسا کوئی شوق نہ پالوں

کس طرح سے روکوں میں اُمنْڈتے ہوئے جذبات
راغبؔ دلِ خوش فہم کو کس طرح سنبھالوں

افتخار راغبؔ

 

تاریخ کا شیوہ ہے صدیوں کو نگل جانا


 

غزل

 

از ڈاکٹر جاوید جمیل

 

چپکے سے قریب آنا، پھر دور نکل جانا

ہر پل کا مقدّر ہے ماضی میں بدل جانا

 

کر کر  کے تری باتیں، پڑھ پڑھ کے ترا چہرہ

ہر صنف سخن سیکھی، ہر رنگ غزل جانا

 

اک فرض ہے ہستی پر ہر پل کی پذیرائی

تاریخ کا شیوہ ہے صدیوں کو نگل جانا

 

پڑتی ہیں پہاڑوں پرسورج کی شعاعیں جب

مشکل کہاں رہتا ہے پھر برف پگھل جانا

 

کردار ادا کرنا ہر شخص کو پڑتا ہے

آساں نہیں قوموں کی تقدیر بدل جانا

 

جاوید ضروری ہے دنیا میں اندھیرا بھی

ہے مصلحت یزداں یہ شام کا ڈھل جانا

--

.

ڈاکٹر احمد ندیم رفیع کی عنایت کردہ ایک طویل غزل




               غزل

         احمد ندیم رفیع


اے   دلِ  نادان  ،  چلا ہے کہاں 
عشق  تو ہے کار گہِ  ہفت خواں 

    خود  لبِ  فریاد   ہے  زخمِ کہن
    ٹھیک  نہیں   نیّتِ   چارہ  گراں

ہو   گۓ   ہم   کشتۂ   منقارِ  تیز
سنتے  ہوۓ  نغمۂ  شیریں زباں

    حُسن  چلا  ایسی قیامت کی چال
    عشق  ہوا   زیر و زبر،  نا تواں

روز  اُدھر   ایک    تقاضا   نیا 
اور  اِدھر   ایک   وہی نقدِ جاں

    طرّۂ   پُر پیچ    ہو   یا   زندگی
    سلسلہ   در  سلسلہ   اک امتحاں

دُور افق  پار  ہے سورج کی لَو
یا  ہے کوئی   جلتا   ہوا  آشیاں

    گاہ   وہی   درد   بھری خامشی
    گاہ   وہی   شورشِ  آہ  و  فغاں

آہ  نکلتی  ہے  نفس  در  نفس 
کیسے کروں شرحِ غمِ رفتگاں

    سنتے  رہے ہم جرسِ دل فریب
   اڑتی  رہی   گردِ   رہِ   کارواں

 گُھل   گۓ جب رنگِ نشاط والم
  بن  گئی  تصویرِ  دلِ   رائیگاں

         ایک پری  چہرہ  مرے  روبرو
    اورمیں خوش فہم گماں درگماں

زیرِ زنخداں  ترا نازک سا ہاتھ  
سوچ میں  ڈوبا  ہوا سارا جہاں

               
                 ق 
              ( حمدیہ )

سہمی  ہوئی  چشمِ  تحیر مری
سامنے اک  جلوہ  گہِ  بیکراں

ایک  طرف میری  جبینِ  نیاز 
ایک  طرف سنگِ  درِ  آستاں

ایک طرف  ساحلِ کوۓ مراد 
ایک طرف  لغزشِ موجِ رواں

ایک  ہی  محور قدم اندر قدم 
ایک ہی تسبیح زباں در زباں

میری طرف  بھی نظرِ التفات
 خام  سہی  میری  نواۓ فغاں

لوحِ  دلِ زار پہ لکّھا ہے سب 
گرچہ نہیں جُراَتِ عرض وبیاں

مٹ گۓ جب فاصلے تو یہ کُھلا
کچھ بھی نہ تھا تیرے مرے درمیاں

       ڈاکٹر احمد  رفیع 

عالیہ تقوی کا مزاحیہ قطعہ بسلسلہء عید



ترے ذریعہ جو پیغام عید آیا ہے
یہ آج اپنا موبائل بہت ہی بھایا ہے

بجایا ہارن ادھر میں نے ایک بائک کا
ادھر رقیب کا گھوڑا بھی ہنہنایا ہے

لو ان کی بزم میں آ دھمکا ایک گبّر سنگھ
بم اور رائفل بھی اپنے ساتھ لایا ہے

کہا سلیم نے ماڈرن بن انار کلی
یہ جینس ٹاپ اسی واسطے دلایا ہے

سویّاں دیکھتے ہی بچّے ماں سےبول اٹھے
یہ ارتھ وورم سا ماں تم نے کیا بنایا ہے

رہی نہ کھانے کی سدھ عالیہ نہ پینے کی
کہ لیپ ٹاپ پہ دل پہلی بار آیا ہے

عالیہ تقوی الہ آباد
آٹھ اگست
دوہزار تیرہ 

الہ آباد کی دو غیر مسلم شاعرات تحریر رضیہ کاظمی



الہ آباد کی دو غیر مسلم شاعرات
[۱]   اہل
شریمتی جانکی بی بی۔ یہ ۱۹ویں صدی کی ایک خوش فکر شاعرہ تھیں۔ یہ شہر کے کایستھ قوم سے تھیں۔ ان کا تذکرہ  الہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر ضامن ععلی صاحب نے ایک کتاب چراغ محفل ٖفصاحت میں کیا ہے۔
انکی ایک طویل غزل سے چند اشعار پیش خدمت ہیں؎
اشعار
تونے تو رہا کر ہی دیا زلف دوتا سے
ہم جان سے جائیں بھی تو اب تیری بلا سے

ملتا ہے وہ مضمون ہمیں ذہن رسا سے
رہ جاتا ہے جو بندش فکر شعرا ؐ سے

کعبہ کی طرف نشہ میں کس طرح سے جاؤں
دشوار سنبھلنا ہے مجھے نغزش پا سے

لایا جو شب ہجرمیں اے اہل زباں پر
تاثیرہم آغوش ہوٗی آکے زباں سے۔۔۔۔

اس گل کا نہ لائے کبھی پیغام مرے پاس
شرمندہ کبھی میں نہ ہوا باد صبا سے

تاحشر جدا ہوں نہ میں اس حور لقا سے
خواہش ہےاگردل میں تو اتنی ہے خدا سے

لیکر کہیں چھلّےکو کرےمجھ کو نہ بدنام
اتنا ہے فقط خوف مجھےدزد حنا سے

باقی نہ رہے خواہش مے بادہ کشوں کو
بےہوش کچھ ایسے ہوئے ساقی کی صلا سے

سچ پوچھئے تو خاک در یار پہ ہم کو
آرام ہے بڑھ کر کہیں نقش کف پا سے


[۲]سوشیلا
شریمتی سوشیلا عرف برج کشوری۔ یہ ۱۸۹۸میں الہ آباد میں پیدا ہوئی تھیں زمانہ کے لحاظ سے ان کی تعلیم گھر پرہی ہوئی تھی۔ ہندی کے علاوہ انھوں نےانگریزی اوراردو میں بھی قابلیت حاصل کی۔ انکے شوہر جو پیشہ سے اسسٹنٹ انجینیر تھے شاعری کرتے تھے
تذکرہ شعرائے کشمیری پنڈتاں المعروف بہ بہار گلشن کشمیر جلد ثانی سے ان کی دو نظمیں پیش ہیں یہ کتاب ۱۹۳۲میں شائع ہوئی تھی۔ ناظرین  سوسال پہلے ایک گھریلوعورت کےآزادئی نسواں سے متعلّق خیالات  ملاحظہ فرمائیں  ۔ یہ نظم کس موقع پر کہی گئی تھی اگر حوالہ دستیاب ہوتا تو پڑھ کر زیادہ لطف آتا
نظم اوّل
بحث تو یہ تھی اصولی مشفق شیریں زباں
اشتعال طبؑ کا باعث ہوا کیا مہرباں۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ پرورمجھ کو ہود عویٰ سخن کا کس طرح
مدّتوں سے ہے وطن پنجاب،پنجابی زباں

یہ سنا تھا آپ کا طرز بیاں دلچسپ ہے
شاعری کا آپ کی ہے معتقد سارا جہاں

ساری کوشش کی ہے صرف داستان حسن وعشق
بتکدہ کا آپ نے چوما ہے سنگ آستاں

مرحبا شان سلاست،حبّذا ذوق سلیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوب دی داد فصاحت آپ نے اے مہرباں

یہ فصاحت، یہ بلاغت، یہ سلاست آپ کی
اس پہ سونے پر سہاگہ اکبر آبادی زباں

چشم بد بیں دور، مطلع مطلع انوار ہے
جوہر پاکیزگی ہے دونوں مصرعوں سے عیاں

ٹھنڈے دل سے آپ نے سوچی کبھی یہ بات بھی
کیا ہیں وصف اردھانگنی کے،کیا ہیں اس میں خوبیاں

ہے شریک رنج وغم گوشامل راحت نہ ہو
آپ گو برہم ہوں لیکن وہ سدا ہے مہر باں

جام شیریں بادۂ الفت سے بھرتی ہے مدام
عفوکرتی ہےبرائی ،وصف سے تر ہے زباں

بیٹیاں ہوں یا ہوں بہنیں آپ کی شیدا ہیں وہ
ہے محبّت ان کی گویا ایک بحر بےکراں

کچھ ثبوت الفت ہمشیر کی حاجت نہیں
نخل الفت کے ثمر دونوں ہیں بیٹے بیٹیاں

آپ کے دم سےشجاعت میں ہےباقی ضرور
ہم نہ ہوتیں گر تو مٹ جاتا محبّت کا نشاں

دیکھئےمردوں کی خود داری کا یہ ادنیٰ ثبوت
لیڈیوں کے سامنے اٹھتی ہیں ان کی ٹوپیاں

شاستروں نے مرد کی اردھانگنی ہم کو کیا
اور بیٹر ہاف کہتا ہے ہمیں سارا جہاں

نذر کرتی آپ کو ہم  ہیں جواہر بے بہا
ہے ہماری ہی بدولت نسل کا  قائم نشاں

آپ موجد ہیں ہر اک ایجاد کے مانا مگر
موجدوں کے کون موجد ہیں یہ کہئےمہرباں

دہر ناقص ہےیہاں تکمیل ہےکس کونصیب
اک مکمّل ذات حق کی ہے بلا ریب و گمان

اے سوشیلا جس بلندی پر نشیمن ہے مرا
طبع موزوں کی وہاں پہچینگی کیا طغیانیاں

دیگر
سن چکے ماہ گزشتہ میں ہو مردوں کا بیاں
اب سنو میری زبانی عورتوں کی داستاں

زور بازوپر اگر مردوں کو نازو زعم ہے
ہیں تحمّل اور شکیب و صبر کی ہم پتلیاں

بھیم وارجن کی اگر طاقت پہ تم کو ناز ہے
دروپدی اور پدمنی سی ہم میں بھی تھیں رانیاں

رام چندر نے پتا کا گر وچن پالن کیا
تھی پتی برت دھرم میں سیتا بھی یکتائے زماں

تم پھروآزاد وآوارہ جہاں میں در بدر۔۔۔۔۔۔
طابع فرماں رہیں ہم اور  پابند مکاں

عقل میں کچھ کم نہیں ہیں شکل میں بہترہیں ہم
تم توانا ہو یہ مانا اور ہم ہیں ناتواں

کیوں نہ ہم چلّا ئیں، چیخیں، شیوۂ بیداد پر
کیوں نہ فریادی بنیں ہم بھی تو رکھتے ہیں زباں

ایک پہیے کی کبھی گاڑی چلا کرتی نہیں
تیر گرٹوٹاہوا ہے تو کماں بار گراں

ہم تووہ ہیں جان بھی قربان کردین آپ پر
آپ ہم سے ہو رہے ناحق کوہیں یوں بدگماں

یہ تو بتلاؤ کہ آخر حاصل محنت ہے کیا
کیا کیا ہے آج تک جس پر ہو کرتے شیخیاں

ہوچکا بس ہوچکا،اب انتظام قوم و ملک
آپ کی بد انتظامی پر ہے روتا آسماں

آزمائش میں ہوئے ہو بےطرح ناکامیاب
اب یہی بہتر ہے ہم کو دو حکومت کی عناں

آگیا اب روز آزادئی نسواں آگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدّتوں کے بعد پاؤں کی کٹینگی بیڑیاں

خواہش حشمت نہیں ہم کو نہ شوق انتقام
بے غرض اور نیک دل ہیں ہو نہ ہم سےبدگماں