Munawwar Rana`s Ghazal | غزلِ منور رانا
00:42:00 Unknown
غزل حسین باندی شباب بنارسی
22:31:00 Unknown
غزل ناصر کاظمی | Ghazal by Nasir Kazmi
22:23:00 Unknown
ساحر لدھیانوی | Sahir ludhyanwi`s Ghazal
22:20:00 Unknown
غزل محسن نقوی
00:05:00 Unknown
مزاحیہ غزل ڈاکٹر فریاد آزرؔ
23:30:00 Unknown
ڈاکٹر فریاد آزر کی ایک غزل
08:22:00 Unknown
اصغر گونڈوی کی ایک غزل
22:53:00 Unknown
حسن عباسی کی ایک غزل
22:45:00 Unknown
حسن عباسی کی ایک غزل
مرتی ہوئی زمیں کو بچانا پڑا مجھے
بادل کی طرح دشت میں آنا پڑا مجھے
وہ کر نہیں رہا تھا مری بات کا یقیں
پھر یوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے
بھولے سے میری سمت کوئی دیکھتا نہ تھا
چہرے پہ ایک زخم لگانا پڑا مجھے
اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے
یادیں تھیں دفن ایسی کہ بعد از فروخت بھی
اس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے
اس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار
کل آئینے پہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے
ایسے بچھڑ کے اس نے تو مر جانا تھا حسن
اس کی نظر میں خود کو گرانا پڑا مجھے
--
غزل پروفیسر اقبال عظیم
14:48:00 Unknown
بیٹھا ہوں تری خاطر الفت کے ذخیروں پر
11:09:00 Unknown
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
الطاف کی بارش ہے گمراہ شریروں پر
طوفاں ہیں مصائب کے نیکی کے سفیروں پر
جب زیست میں آئے گا، دیکھے گا تعجب سے
بیٹھا ہوں تری خاطر الفت کے ذخیروں پر
رہتا ہوں تخیل میں سائے میں ستاروں کے
لکھی ہے مری قسمت شنبنم کی لکیروں پر
بے نام غریبوں کی پروا ہے یہاں کس کو
انعام برستے ہیں بد نام امیروں پر
منزل ہے فقط انکی خود اپنی ہوس پرسی
پھر کیسے بھروسہ ہو ان جیسے مشیروں پر
شیطاں کے وساوس سے کس طرح بچا جائے
اک بار مسلسل ہے لاچار ضمیروں پر
اے وقت! تمنا ہے ہم کو بھی اسی پل کی
کب ابر کرم برسے ہم ایسے حقیروں پر
اک جہد مسلسل ہو میدان حقیقت میں
کیوں پھرتے ہیں آوارہ خوابوں کے جزیروں پر
ہشیار تھے دشمن سے، سوچا نہ تھا یہ لیکن
"جاوید" لکھا ہوگا احباب کے تیروں پر
تمام شُد - محسن نقوی
03:38:00 Unknown
وہ درد، وہ وفا، وہ محبت تمام شُد
لے! دل میں ترے قرب کی حسرت تمام شُد
یہ بعد میں کُھلے گا کہ کس کس کا خُون ہوا
ہر اِک بیاں ختم، عدالت تمام شُد
تُو اب تو دشمنی کے بھی قابل نہیں رہا
اُٹھتی تھی جو کبھی وہ عداوت تمام شُد
اب ربط اک نیا مجھے آوارگی سے ہے
پابندیء خیال کی عادت تمام شُد
جائز تھی یا نہیں، ترے حق میں تھی مگر
کرتا تھا جو کبھی وہ وکالت تمام شُد
وہ روز روز مرنے کا قصہ ہوا تمام
وہ روز دِل کو چِیرتی وحشت تمام شُد
محسن میں کُنجِ زیست میں چُپ ہوں پڑا
مجنُوں سی وہ خصلت و حالت تمام شُد
محسن نقوی
کبھی یاد آؤ تو اس طرح.. محسن نقوی
11:15:00 Unknown
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو
تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑ ہے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
مرا درد پھر سے غزل بنے
کبھی گنگناؤ تو اس طرح
مرے زخم پھر سے گلاب ہوں
کبھی مسکراؤ تو اس طرح
مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں
کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو
نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو
یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو
نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں
کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں
کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
( محسن نقوی )
تمہیں کیسے بتائیں ہم -سلیم کوثر
06:44:00 Unknown
تمہیں کیسے بتائیں ہم
محبت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا
کہانی میں
تو ہم واپس بھی آتے ہیں
محبت میں پلٹنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا
ذرا سوچو!
کہیں دل میں خراشیں ڈالتی یادوں کی سفاکی
کہیں دامن سے لپٹی ہے کسی بھولی ہوئی
ساعت کی نم ناکی
کہیں آنکھوں کے خیموں میں
خراغِ خواب گل کرنے کی سازش کو
ہوادیتی ہوئی راتوں کی چالاکی
مگر میں بندہ خاکی
نہ جانے کتنے فرعونوں سے اُلجھی ہے
مرے لہجے کی بے باکی
مجھے دیکھو
مرے چہرے پہ کتنے موسوں کی گرد
اور اس گرد کی تہہ میں
سمے ی دھوپ میں رکھا اک آئینہ
اور آئینے میں تاحد نظر پھیلے
محبت کے ستارے عکس بن کر جھلملاتے ہیں
نئی دنیاؤں کا رستہ بتاتے ہیں
اسی منظر میں آئینے سے الجھی کچھ لکیریں ہیں
لکیروں میں کہانی ہے
کہانی اور محبت میں ازل سے جنگ جاری ہے
محبت میں اک ایسا موڑ آتا ہے
جہاں آکر کہانی ہار جاتی ہے
کہانی میں کچھ کردار ہم خود فرض کرتے ہیں
محبت میں کوئی کردار بھی فرضی نہیں ہوتا
کہانی میں کئی کردار
زندہ ہی نہیں رہتے
محبت اپنے کرداروں کو مرنے ہی نہیں دیتی
کہانی کے سفر میں
منظروں کی دھول اڑتی ہے
محبت کی مسافر راہ گیروں کو بکھرنے ہی نہیں دیتی
محبت اک شجر ہے
اور شجر کو اس سے کیا مطلب
کہ اس کے سائے میں جو بھی تھکا ہارا مسافر آکے بیٹھا ہے
اب اس کی نسل کیا ہے دنگ کیسا ہے
کہاں سے آیا ہے
کس سمت جانا ہے
شجر کا کام تو بس چھاؤں دینا ہے
دھوپ سہنا ہے
اسے اس سے غرض کیا ہے
پڑاؤ ڈالنے والوں میں کس نے
چھاؤں کی تقسیم کا جھگڑا اُٹھا یا ہے
کہاں کس عہد کو توڑا کہاں وعدہ نبھایا ہے
مگر ہم جانتے ہیں
چھاؤں جب تقسیم ہوجائے
تو اکثر دھوپ کے نیزے
رگ و پے میں اترتے ہیں
اور اس کے زخم خوردہ لوگ
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔
سلیم کوثر
کامران اسیر ساگر کی ایک بہترین غزل
00:27:00 Unknown
قدیم تخت پہ لکھیں روایتیں پڑھ کر
شجر بھی رات کو روتے ہیں آیتیں پڑھ کر
چراغ بام پہ اوندھے پڑے ہوئے ہیں یہاں
ہوا بھی چیخ رہی ہے عبارتیں پڑھ کر
تمام خواب حقیقت پہ کھل رہے ہیں ابھی
کوئی جواب نہیں ہے شکایتیں پڑھ کر
کوئی وجود میسر نہیں ابھی مجھکو
بھٹک رہا ہوں میں دنیا کی نسبتیں پڑھ کر
قدم قدم پہ اذیت کا رقص جاری ہے
بتا یہ خواب کی تعبیر وحشتیں پڑھ کر
میں خواب خواب سجاتا ہوں وقت کا سینہ
گزشتہ قوم پہ گزری حکایتیں پڑھ کر
ستارے آن گرے خواب گاہ میں ساگر
سو آگئی ہے قیامت، قیامتیں پڑھ کر
کامران اسیر ساگر
غزل امجد اسلام امجد
23:42:00 Unknown
نہ ربط ہے نہ معانی ، کہیں تو کس سے کہیں!
ہم اپنے غم کی کہانی ، کہیں تو کس سے کہیں!
سلیں ہیں برف کی سینوں میں اب دلوں کی جگہ
یہ سوزِ دردِ نہانی کہیں تو کس سے کہیں!
نہیں ہے اہلِ جہاں کو خود اپنے غم سے فراغ
ہم اپنے دل کی گرانی کہیں تو کس سے کہیں!
پلٹ رہے ہیں پرندے بہار سے پہلے
عجیب ہے یہ نشانی کہیں تو کس سے کہیں!
نئے سُخن کی طلب گار ہے نئی دُنیا
وہ ایک بات پرانی کہیں تو کس سے کہیں
نہ کوئی سُنتا ہے امجدؔ نہ مانتا ہے اسے
حدیثِ شامِ جوانی کہیں تو کس سے کہیں!
غزل فیض احمد فیض
03:17:00 Unknown
شہر میں چاک گریباں ہوئے ناپید اب کے
کوئی کرتا ہی نہیں ضبط کی تاکید اب کے
لطف کر، اے نگہِ یار ، کہ غم والوں نے
حسرتِ دل کی اُٹھائی نہیںتمہید اب کے
چاند دیکھا تری آنکھوں میں ، نہ ہونٹوں پہ شفق
ملتی جلتی ہے شبِ غم سے تری دید اب کے
دل دکھا ہے نہ وہ پہلا سا، نہ جاں تڑپی ہے
ہم ہی غافل تھے کہ آئی ہی نہیں عید اب کے
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھو سرِ محفل کوئی خورشید اب کے
-- فیض احمد فیض
افتخار راغب کی ایک غزل
07:04:00 Unknown
ایک غزل آپ سب کی نذر براے تنقید و تبصرہ
والسلام
افتخار راغبؔ
دوحہ قطر
غزل
چاہوں کہ ہمیشہ میں زمانے کی دعا لوں
سوچوں کہ درختوں کی طرح خود کو بنا لوں
اے میری جھجک ساتھ مِرا چھوڑ دے ورنہ
ڈر ہے کہ کسی روز تجھے مار نہ ڈالوں
کس روز نظر آئے گا تعبیر کا جگنو
کب تک میں تِرے خواب کو آنکھوں میں سنبھالوں
کیا درد کی لذّت سے شناسائی ہوئی ہے
ہر درد کو جی چاہے کہ سینے سے لگا لوں
جو موجبِ نقصان کسی کے لیے ٹھہرے
مر جاؤں مگر ایسا کوئی شوق نہ پالوں
کس طرح سے روکوں میں اُمنْڈتے ہوئے جذبات
راغبؔ دلِ خوش فہم کو کس طرح سنبھالوں
افتخار راغبؔ
تاریخ کا شیوہ ہے صدیوں کو نگل جانا
07:01:00 Unknown
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
چپکے سے قریب آنا، پھر دور نکل جانا
ہر پل کا مقدّر ہے ماضی میں بدل جانا
کر کر کے تری باتیں، پڑھ پڑھ کے ترا چہرہ
ہر صنف سخن سیکھی، ہر رنگ غزل جانا
اک فرض ہے ہستی پر ہر پل کی پذیرائی
تاریخ کا شیوہ ہے صدیوں کو نگل جانا
پڑتی ہیں پہاڑوں پرسورج کی شعاعیں جب
مشکل کہاں رہتا ہے پھر برف پگھل جانا
کردار ادا کرنا ہر شخص کو پڑتا ہے
آساں نہیں قوموں کی تقدیر بدل جانا
جاوید ضروری ہے دنیا میں اندھیرا بھی
ہے مصلحت یزداں یہ شام کا ڈھل جانا
--
.
ڈاکٹر احمد ندیم رفیع کی عنایت کردہ ایک طویل غزل
23:21:00 Unknown
عالیہ تقوی کا مزاحیہ قطعہ بسلسلہء عید
23:18:00 Unknown
الہ آباد کی دو غیر مسلم شاعرات تحریر رضیہ کاظمی
05:21:00 Unknown