Download Urdu Novels in PDF, Free Urdu Novels PDF, Peer e Kamil by Umera Ahmed,

Tag

ماں... صدیق ثانی




ماں
صدیق ثانی

تو جا کے سو گئی مٹی کی اوڑھ کر چادر
سکھا گئی مری آنکھوں کو جاگنا شب بھر

میں اب جو روؤں تو آنسو زمین پر ٹپکیں
کوئی نہیں جو سمیٹے انہیں گوہر کہہ کر

کوئی نہیں جو تشفی کو ہاتھ سر پہ رکھے
کوئی نہیں جو دعاؤں کی بارشیں کر دے

میں روٹھ جاؤں کسی سے کوئی مناتا نہیں
میں ٹوٹ پھوٹ کے بکھروں کوئی اٹھاتا نہیں

میں بھوک پیاس کے صحرا میں جتنی دیر جلوں
کسی کو فکر نہیں ہے کہ میں کہاں پر ہوں

کوئی اتار کے لاتا نہیں  صلیب سے اب
کوئی بلاتا نہیں زور سے، قریب سے اب

یہ رنج و غم کی تپش اب مجھے جلاتی ہے
میں اب جو روؤں تو  تقدیر مسکراتی ہے

وہی ہے زعم وہی بال و پر ہوا ہے وہی
میں چلنا چاہوں تو قدموں میں راستہ ہے وہی

پر ایک حرفِ دعا کی کمی جو اب ہے مجھے
اس ایک حرفِ دعا کی بڑی طلب ہے مجھے


انا قاسمی کی ایک غزل



غزل

روٹھنا مجھ سے مگر خود کو سزا مت دینا
زلف  رخسار سے کھیلے تو ہٹا مت دینا

میرے اس جرم کی قسطوں میں سزا مت دینا
بے وفائی کا صلہ یار وفا مت دینا

کون آئے گا دہکتے ہوئے شعلوں کے پرے
تھک کے سو جاؤں تو اے خواب جگہ مت دینا

ساری دنیا کو جلا دے گا ترا آگ کا کھیل
بھڑکے جذبات کو آنچل کی ہوا مت دینا

خون ہو جائیں نہ قسمت کی لکیریں تیری
میلے ہاتھوں کو کبھی رنگے حنا مت دینا

اوچھی پلکوں پہ حسیں خواب سجانے والے
میری آنکھوں سے میری نیند اڑا مت دینا

سوچ لینا کوئی تاویل مناسب لیکن
اس ہتھیلی سے مرا نام مٹا مت دینا

حمیدؔ ناگپوری کی ایک غزل


فکر پابندئ حالات سے آگے نہ بڑھی
زندگی قیدِ مقامات سے آگے نہ بڑھی

ہم سمجھتے تھے غمِ دل کا مداو ا ہوگی
وہ نظر پرسشِ حالات سے آگے نہ بڑھی

اُن کی خاموشی بھی افسانہ در افسانہ بنی
ہم نے جو بات کہی بات سے آگے نہ بڑھی

سرخوشی بن نہ سکی زہرِ الم کا تریاق
زندگی تلخئ حالات سے آگے نہ بڑھی

عشق ہر مر حلۂ غم کی حدیں توڑ چُکا
عقل اندیشۂ حالات سے آگے نہ بڑھی

ایسی جنت کی ہوس تجھ کو مُبارک زاہد
جو ترے حسنِ خیالات سے آگے نہ بڑھی

نگہِ دوست میں توقیر نہیں اُس کی حمیدؔ
 وہ تمنّا جو مناجات سے آگے نہ بڑھی

صادق اندوری کی ایک غزل


مٹے کچھ ایسے کہ موجود خاک و خس بھی نہیں
کہاں نشاں نشیمن کہیں قفس بھی نہیں

تلاش کرنا ہے خود ہم کو جادۂ منزل
کہ راہبر کوئی اب اپنے پیش رپس بھی نہیں

یہ روز روز کے طعنے، یہ صبح و شام کے طنز
سلوک دوست بجا، لیکن اس پہ بس بھی نہیں

ہر اک نفس پہ مسلط ہے تلخی ماحول
جئیں تو کیسے جئیں زندگی میں رس بھی نہیں

تباہ کر دے جو پاکیزگی کے دامن کو
بلند اتنا مگر شعلہ ہوس بھی نہیں

وہ اس مقام سے صادق پکارتے ہیں ہمیں
جہاں ہمارے تخیل کی دسترس بھی نہیں

محسن بھوپالی کی ایک غزل



لب اگر یوں سئے نہیں ہوتے
اُس نے دعوے کئے نہیں ہوتے

خُوب ہے، خُوب تر ہے، خُوب ترین
اِس طرح تجزیئے نہیں ہوتے

گر ندامت سے تم کو بچنا تھا
فیصلے خُود کئے نہیں ہوتے

بات بین السّطوُر ہوتی ہے
شعر میں حاشئے نہیں ہوتے

تیرگی سے نہ کیجئے اندازہ
کچھ گھروں میں دیئے نہیں ہوتے

ظرف ہے شرطِ اوّلیں محسن
جام سب کے لیے نہیں ہوتے

گلزار ؔ ( سمپورن سنگھ ) کی ایک غزل


خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں

جانے کس کا ذکر تھا اس افسانے میں
درد مزے لیتا ہے جو دہرانے میں

شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں
چاند نے کتنی دیر لگادی آنے میں

رات گذرتے شاید تھوڑا وقت لگے
ذرا سی دھوپ انڈیل میرے پیمانے میں

دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے
کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں

کلام نعیم اختر



کلام نعیم اختر  بن  دلاور حسُین مومن، بیلگام  

کہاں  یہ  ہم کھو گئے  ،  خودی ضِرار  ہو گئے
خبر نہیں نقش پا کی ،راہ   فرار   ہو گئے
بھلا  کیوں  راہ  زن ،ہمیں راہ بتاے گا
ملے گی  راہ  کیوں  بھلا  ،  راہ  قمار ہو  گئے
سوال تو  کیا    نہ  تھا، جواب   پھر  ملے  گا  کیوں
طلب تو حق  کی  تھی  نہیں   ، حق  غرار  ہو گئے
کتاب  و  نور  پہنچ  گیا  ، تکمیل     دیں  ہو گیا     
یہ  کیسی بے  روخی ہے     ،   سُو  دیار  ہو  گئے  
 وہ  دیں  فلاح    دو جہاں   و   دیں  بقاء  ارمغان
تڑپ  کچھ اسکی تھی  نہیں  ،  بد  مدارہو گئے
نہ   ہو ئی  چشم  نم  کبھی  ،   نہ  تھا  سوزِ  دل   کہیں
ملے نجات کیوں ہمیں  ،    شرخیار ہوگئے
دست قرآن و حدیث ِؐاست، فہمِ اصحا بہ ِ رسول ﷺرا
اطاعت رسول ؐسے ہی سلف ،خودی سرشار ہو گے