حسن عباسی کی ایک غزل
22:45:00 Unknown
حسن عباسی کی ایک غزل
مرتی ہوئی زمیں کو بچانا پڑا مجھے
بادل کی طرح دشت میں آنا پڑا مجھے
وہ کر نہیں رہا تھا مری بات کا یقیں
پھر یوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے
بھولے سے میری سمت کوئی دیکھتا نہ تھا
چہرے پہ ایک زخم لگانا پڑا مجھے
اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے
یادیں تھیں دفن ایسی کہ بعد از فروخت بھی
اس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے
اس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار
کل آئینے پہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے
ایسے بچھڑ کے اس نے تو مر جانا تھا حسن
اس کی نظر میں خود کو گرانا پڑا مجھے
--
غزل پروفیسر اقبال عظیم
14:48:00 Unknown
بیٹھا ہوں تری خاطر الفت کے ذخیروں پر
11:09:00 Unknown
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
الطاف کی بارش ہے گمراہ شریروں پر
طوفاں ہیں مصائب کے نیکی کے سفیروں پر
جب زیست میں آئے گا، دیکھے گا تعجب سے
بیٹھا ہوں تری خاطر الفت کے ذخیروں پر
رہتا ہوں تخیل میں سائے میں ستاروں کے
لکھی ہے مری قسمت شنبنم کی لکیروں پر
بے نام غریبوں کی پروا ہے یہاں کس کو
انعام برستے ہیں بد نام امیروں پر
منزل ہے فقط انکی خود اپنی ہوس پرسی
پھر کیسے بھروسہ ہو ان جیسے مشیروں پر
شیطاں کے وساوس سے کس طرح بچا جائے
اک بار مسلسل ہے لاچار ضمیروں پر
اے وقت! تمنا ہے ہم کو بھی اسی پل کی
کب ابر کرم برسے ہم ایسے حقیروں پر
اک جہد مسلسل ہو میدان حقیقت میں
کیوں پھرتے ہیں آوارہ خوابوں کے جزیروں پر
ہشیار تھے دشمن سے، سوچا نہ تھا یہ لیکن
"جاوید" لکھا ہوگا احباب کے تیروں پر
تمام شُد - محسن نقوی
03:38:00 Unknown
وہ درد، وہ وفا، وہ محبت تمام شُد
لے! دل میں ترے قرب کی حسرت تمام شُد
یہ بعد میں کُھلے گا کہ کس کس کا خُون ہوا
ہر اِک بیاں ختم، عدالت تمام شُد
تُو اب تو دشمنی کے بھی قابل نہیں رہا
اُٹھتی تھی جو کبھی وہ عداوت تمام شُد
اب ربط اک نیا مجھے آوارگی سے ہے
پابندیء خیال کی عادت تمام شُد
جائز تھی یا نہیں، ترے حق میں تھی مگر
کرتا تھا جو کبھی وہ وکالت تمام شُد
وہ روز روز مرنے کا قصہ ہوا تمام
وہ روز دِل کو چِیرتی وحشت تمام شُد
محسن میں کُنجِ زیست میں چُپ ہوں پڑا
مجنُوں سی وہ خصلت و حالت تمام شُد
محسن نقوی
کبھی یاد آؤ تو اس طرح.. محسن نقوی
11:15:00 Unknown
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو
تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑ ہے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
مرا درد پھر سے غزل بنے
کبھی گنگناؤ تو اس طرح
مرے زخم پھر سے گلاب ہوں
کبھی مسکراؤ تو اس طرح
مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں
کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو
نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو
یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو
نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں
کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں
کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
( محسن نقوی )
تمہیں کیسے بتائیں ہم -سلیم کوثر
06:44:00 Unknown
تمہیں کیسے بتائیں ہم
محبت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا
کہانی میں
تو ہم واپس بھی آتے ہیں
محبت میں پلٹنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا
ذرا سوچو!
کہیں دل میں خراشیں ڈالتی یادوں کی سفاکی
کہیں دامن سے لپٹی ہے کسی بھولی ہوئی
ساعت کی نم ناکی
کہیں آنکھوں کے خیموں میں
خراغِ خواب گل کرنے کی سازش کو
ہوادیتی ہوئی راتوں کی چالاکی
مگر میں بندہ خاکی
نہ جانے کتنے فرعونوں سے اُلجھی ہے
مرے لہجے کی بے باکی
مجھے دیکھو
مرے چہرے پہ کتنے موسوں کی گرد
اور اس گرد کی تہہ میں
سمے ی دھوپ میں رکھا اک آئینہ
اور آئینے میں تاحد نظر پھیلے
محبت کے ستارے عکس بن کر جھلملاتے ہیں
نئی دنیاؤں کا رستہ بتاتے ہیں
اسی منظر میں آئینے سے الجھی کچھ لکیریں ہیں
لکیروں میں کہانی ہے
کہانی اور محبت میں ازل سے جنگ جاری ہے
محبت میں اک ایسا موڑ آتا ہے
جہاں آکر کہانی ہار جاتی ہے
کہانی میں کچھ کردار ہم خود فرض کرتے ہیں
محبت میں کوئی کردار بھی فرضی نہیں ہوتا
کہانی میں کئی کردار
زندہ ہی نہیں رہتے
محبت اپنے کرداروں کو مرنے ہی نہیں دیتی
کہانی کے سفر میں
منظروں کی دھول اڑتی ہے
محبت کی مسافر راہ گیروں کو بکھرنے ہی نہیں دیتی
محبت اک شجر ہے
اور شجر کو اس سے کیا مطلب
کہ اس کے سائے میں جو بھی تھکا ہارا مسافر آکے بیٹھا ہے
اب اس کی نسل کیا ہے دنگ کیسا ہے
کہاں سے آیا ہے
کس سمت جانا ہے
شجر کا کام تو بس چھاؤں دینا ہے
دھوپ سہنا ہے
اسے اس سے غرض کیا ہے
پڑاؤ ڈالنے والوں میں کس نے
چھاؤں کی تقسیم کا جھگڑا اُٹھا یا ہے
کہاں کس عہد کو توڑا کہاں وعدہ نبھایا ہے
مگر ہم جانتے ہیں
چھاؤں جب تقسیم ہوجائے
تو اکثر دھوپ کے نیزے
رگ و پے میں اترتے ہیں
اور اس کے زخم خوردہ لوگ
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔
سلیم کوثر