Download Urdu Novels in PDF, Free Urdu Novels PDF, Peer e Kamil by Umera Ahmed,

Tag

اصغر گونڈوی کی ایک غزل




افتادگانِ عشق نے سَر اَب تو رکھ دیا
اٹھیں گے بھی تو نقشِ کفِ پا لئے ہوئے

رگ رگ میں اور کچھ نہ رہا جُز خیالِ دوست
اس شوخ کو ہوں آج سراپا لئے ہوئے

دل مبتلا و مائلِ تمکینِ اِتّقا!
جامِ شرابِ نرگسِ رسوا لئے ہوئے

سرمایہ حیات ہے حرمانِ عاشقی
ہے ساتھ ایک صورتِ زیبا لئے ہوئے

جوشِ جنوں میں چھوٹ گیا آستانِ یار
روتے ہیں‌منہ پہ دامنِ صحرا لئے ہوئے

اصغر ہجومِ دردِ غریبی میں اُس کی یاد
آئی ہے اِک طلسمِ تمنّا لئے ہوئے

حسن عباسی کی ایک غزل


 
حسن عباسی کی ایک غزل

مرتی ہوئی زمیں کو بچانا پڑا مجھے
بادل کی طرح دشت میں آنا پڑا مجھے

وہ کر نہیں‌ رہا تھا مری بات کا یقیں
پھر یوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے

بھولے سے میری سمت کوئی دیکھتا نہ تھا
چہرے پہ ایک زخم لگانا پڑا مجھے

اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے

یادیں تھیں دفن ایسی کہ بعد از فروخت بھی
اس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے

اس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار
کل آئینے پہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے

ایسے بچھڑ کے اس نے تو مر جانا تھا حسن
اس کی نظر میں خود کو گرانا پڑا مجھے

--

غزل پروفیسر اقبال عظیم




                                                                                                                    غزل                                                               
========
پروفیسر  اقبال عظیم
----------------------------

غلط معانی  دئیے جاتے ہیں زیرلب تبسم  کو
سمجھ پاۓ نہ اب  تک  لوگ اس خاموش قلزم کو

بڑا  دھوکہ دیا ہم کو ہماری خوش خیالی نے
نہ جانے کیا سمجھ بیٹھے نگاہوں کے تصادم کو

محبت میں خطائیں ایک جانب سے نہیں ہوتیں
نہ تم الزام دو ہمکو ، نہ ہم الزام دیں تم کو

زباں خاموش ،ماتھے پر شکن ، آنکھوں میں افسانے
کوئی سمجھاۓ کیا کہتے ہیں اس طرز تکّلم کو

تمھیں ناراض ہونے کا سلیقہ بھی نہیں آتا
شکن ماتھے پی ڈالو ،اور روکو اس تبسم کو

زمانہ ہو گیا اقبال ہم اک ساتھ رہتے ہیں
تعجب ہے سمجھ پاے نہ تم ہمکو ، نہ ہم تم کو
------------------------------
مرسلہ ----سعود صدیقی


.

بیٹھا ہوں تری خاطر الفت کے ذخیروں پر


غزل

از ڈاکٹر جاوید جمیل

 

الطاف کی بارش ہے گمراہ شریروں پر

طوفاں ہیں مصائب کے نیکی کے سفیروں پر

 

جب زیست میں آئے گا، دیکھے گا تعجب سے

بیٹھا ہوں تری خاطر الفت کے ذخیروں پر

 

رہتا ہوں تخیل میں سائے میں ستاروں کے

لکھی ہے مری قسمت شنبنم کی لکیروں پر

 

بے نام غریبوں کی پروا ہے یہاں کس کو

انعام برستے ہیں بد نام امیروں پر

 

منزل ہے فقط انکی خود اپنی ہوس پرسی

پھر کیسے بھروسہ ہو ان جیسے مشیروں پر

 

شیطاں کے وساوس سے کس طرح بچا جائے

اک بار مسلسل ہے لاچار ضمیروں پر

 

اے وقت! تمنا ہے ہم کو بھی اسی پل کی

کب ابر کرم برسے ہم ایسے حقیروں پر

 

اک جہد مسلسل ہو میدان حقیقت میں

کیوں پھرتے ہیں آوارہ خوابوں کے جزیروں پر

 

ہشیار تھے دشمن سے، سوچا نہ تھا یہ لیکن

"جاوید" لکھا ہوگا احباب کے تیروں پر

 

تمام شُد - محسن نقوی



وہ درد، وہ وفا، وہ محبت تمام شُد
لے! دل میں ترے قرب کی حسرت تمام شُد

یہ بعد میں کُھلے گا کہ کس کس کا خُون ہوا
ہر اِک بیاں ختم، عدالت تمام شُد

تُو اب تو دشمنی کے بھی قابل نہیں رہا
اُٹھتی تھی جو کبھی وہ عداوت تمام شُد

اب ربط اک نیا مجھے آوارگی سے ہے
پابندیء خیال کی عادت تمام شُد

جائز تھی یا نہیں، ترے حق میں تھی مگر
کرتا تھا جو کبھی وہ وکالت تمام شُد

وہ روز روز مرنے کا قصہ ہوا تمام
وہ روز دِل کو چِیرتی وحشت تمام شُد

محسن میں کُنجِ زیست میں چُپ ہوں پڑا
مجنُوں سی وہ خصلت و حالت تمام شُد

محسن نقوی

کبھی یاد آؤ تو اس طرح.. محسن نقوی



کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو
تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں

کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑ ہے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
مرا درد پھر سے غزل بنے
کبھی گنگناؤ تو اس طرح
مرے زخم پھر سے گلاب ہوں

کبھی مسکراؤ تو اس طرح
مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں
کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو
نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو
یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو
نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں

کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں
کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!

( محسن نقوی )

 

تمہیں کیسے بتائیں ہم -سلیم کوثر


 

تمہیں کیسے بتائیں ہم

محبت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا

کہانی میں

تو ہم واپس بھی آتے ہیں

محبت میں پلٹنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا

ذرا سوچو!

کہیں دل میں خراشیں ڈالتی یادوں کی سفاکی

کہیں دامن سے لپٹی ہے کسی بھولی ہوئی

ساعت کی نم ناکی

کہیں آنکھوں کے خیموں میں

خراغِ خواب گل کرنے کی سازش کو

ہوادیتی ہوئی راتوں کی چالاکی

مگر میں بندہ خاکی

نہ جانے کتنے فرعونوں سے اُلجھی ہے

مرے لہجے کی بے باکی

مجھے دیکھو

مرے چہرے پہ کتنے موسوں کی گرد

اور اس گرد کی تہہ میں

سمے ی دھوپ میں رکھا اک آئینہ

اور آئینے میں تاحد نظر پھیلے

محبت کے ستارے عکس بن کر جھلملاتے ہیں

نئی دنیاؤں کا رستہ بتاتے ہیں

اسی منظر میں آئینے سے الجھی کچھ لکیریں ہیں

لکیروں میں کہانی ہے

کہانی اور محبت میں ازل سے جنگ جاری ہے

محبت میں اک ایسا موڑ آتا ہے

جہاں آکر کہانی ہار جاتی ہے

کہانی میں کچھ کردار ہم خود فرض کرتے ہیں

محبت میں کوئی کردار بھی فرضی نہیں ہوتا

کہانی میں کئی کردار

زندہ ہی نہیں رہتے

محبت اپنے کرداروں کو مرنے ہی نہیں دیتی

کہانی کے سفر میں

منظروں کی دھول اڑتی ہے

محبت کی مسافر راہ گیروں کو بکھرنے ہی نہیں دیتی

محبت اک شجر ہے

اور شجر کو اس سے کیا مطلب

کہ اس کے سائے میں جو بھی تھکا ہارا مسافر آکے بیٹھا ہے

اب اس کی نسل کیا ہے دنگ کیسا ہے

کہاں سے آیا ہے

کس سمت جانا ہے

شجر کا کام تو بس چھاؤں دینا ہے

دھوپ سہنا ہے

اسے اس سے غرض کیا ہے

پڑاؤ ڈالنے والوں میں کس نے

چھاؤں کی تقسیم کا جھگڑا اُٹھا یا ہے

کہاں کس عہد کو توڑا کہاں وعدہ نبھایا ہے

مگر ہم جانتے ہیں

چھاؤں جب تقسیم ہوجائے

تو اکثر دھوپ کے نیزے

رگ و پے میں اترتے ہیں

اور اس کے زخم خوردہ لوگ

 

جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔

 

سلیم کوثر