Download Urdu Novels in PDF, Free Urdu Novels PDF, Peer e Kamil by Umera Ahmed,

Tag

Ghazal by Dr Javed jameel | ڈاکٹر جاوید جمیل کی ایک تازہ غزل



غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل

نہ ملا  کبھی کسی سے اسے دیوتا سمجھ کر
بھلا کیسے پوجتا پھر میں اسے خدا سمجھ کر

میں یہ چاہتا ہوں مجھ سے وہ ملے تو دوست بن کے
نہ بڑا سمجھ کے خود کو،  نہ مجھے بڑا سمجھ کر

کوئی انکو یہ بتا دے مرے منہ میں بھی زباں ہے
وہ ستم کریں گے کب تک مجھے بے نوا سمجھ کر

کئے فیصلے ہمیشہ ترے رخ کو دیکھ کر ہی
کبھی باوفا سمجھ کر، کبھی بے وفا سمجھ کر

ترا غم اٹھا رہا ہوں، ترا درد سہہ رہا ہوں
مری بندگی سی الفت کی حسیں جزا سمجھ کر

مرے عشق کو مقدر درجات دے رہا ہے
کبھی ابتدا سمجھ کر، کبھی انتہا سمجھ کر

کوئی حکم دوں اسے میں یہ نہیں مقام میرا
مری بات کاش مانے مری التجا سمجھ کر

مری باطنی حقیقت انھیں کیا دکھائی دے گی
جو مجھے ستا رہے ہیں کوئی سر پھرا سمجھ کر

 وہ زوال_ آدمیت کی ہے شاہراہ جاوید
ہے زمانہ جس کا راہی رہ_ ارتقا سمجھ کر

Munawwar Rana`s Ghazal | غزلِ منور رانا


جب بھی دیکھا مرے کردار  پہ دھبا کوئی
دیر تک بیٹھ کے تنہائی میں رویا کوئی

لوگ ماضی کا بھی اندازہ لگا لیتے ہیں
مجھ کو تو یاد نہیں کل کا بھی قصہ کوئی

بے سبب آنکھ میں آنسو نہیں آیا کرتے
آپ سے ہوگا یقیناً  مرا رشتہ کوئی

یاد آنے لگا ایک دوست کا برتاؤ مجھے
ٹوٹ کر گر پڑا جب شاخ سے پتّہ کوئی

بعد میں ساتھ نبھانے کی قسم کھا لینا
دیکھ لو جلتا ہوا پہلے پتنگا کوئی

اس کو کچھ دیر سنا لیتا ہوں رودادِ سفر
راہ میں جب کبھی مل جاتا ہے اپنا کوئی

کیسے سمجھیگا بچھڑنا وہ کسی کا رانا
ٹوٹتے دیکھا نہیں جس نے ستارہ کوئی

غزل حسین باندی شباب بنارسی


 غزل
 حسین باندی شباب بنارسی

مے کشی کا لطف تنہائی میں کیا، کچھ بھی نہیں
یار پہلو میں نہ ہو جب تک، مزا کچھ بھی نہیں

تم رہو پہلو میں میرے، میں تمہیں دیکھا کروں
حسرتِ دل اے صنم، اِس کے سوا کچھ بھی نہیں

حضرتِ دل کی بدولت میری رسوائی ہوئی
اس کا شکوہ آپ سے اے دلربا کچھ بھی نہیں

قسمتِ بد دیکھئے، پُوچھا جو اُس نے حالِ دل
باندھ کے ہاتھوں کومیں نے کہہ دیا، کچھ بھی نہیں 

آپ ہی تو چھیڑ کرپُوچھا ہمارا حالِ دل
بولے پھرمنھ پھیرکے، ہم نے سُنا کچھ بھی نہیں

کوچہؑ الفت میں انساں دیکھ کے رکھے قدم
ابتدا اچھی ہے اِس کی، انتہا کچھ بھی نہیں

حسین باندی شباب بنارسی

غزل ناصر کاظمی | Ghazal by Nasir Kazmi


غزلِ
ناصر کاظمی 

ترے خیال سے لَو دے اٹھی ہے تنہائی
 شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی

تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
 اُنھیں بھی دیکھ جِنھیں راستے میں نیند آئی

پُکار اے جرسِ کاروانِ صبحِ طرب
 بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی

ٹھہر گئے ہیں سرِ راہ خاک اُڑانے کو
 مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی

رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لئے
 یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی

یہ سانحہ بھی محبّت میں بارہا گزرا
 کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

دلِ فسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اُٹھا
 یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی

میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا
 تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی

جہاں بھی تھا کوئی فتنہ تڑپ کے جاگ اُٹھا
 تمام ہوش تھی مستی میں تیری انگڑائی

کھُلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
 وہ لوگ تھے، نہ وہ جلسے، نہ شہرِ رعنائی

وہ تابِ درد وہ سودائے انتظار کہاں
 اُنہی کے ساتھ گئی طاقتِ شکیبائی

پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
 بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی

ساحر لدھیانوی | Sahir ludhyanwi`s Ghazal


خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے

ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے

ٹوٹا طلسمِ عہد محبّت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے

ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کرسکے

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کرسکے

مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کر سکے

غزل محسن نقوی



غزل 
======
محسن نقوی 
---------------------

وفا میں اب یہ ہنر اختیار کر نا ہے 
وہ سچ کہے نہ کہے ، اعتبار کرنا ہے 

یہ تجھ  کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہوا
مجھے تو خیر ترا انتظار کرنا ہے 

ہوا کی زد میں جلانے ہیں آنسووں کے چراغ 
کبھی یہ جشن سر_ راہ گزار کرنا ہے 

مثال _شاخ _برہنہ ، خزاں کی رت میں کبھی 
خود اپنے جسم کو بے برگ و بار کرنا ہے 

تیرے فراق میں دن کس طرح کٹیں اپنے 
کہ شغل _شب تو ستارے شمار کرنا ہے 

کبھی تو دل میں چھپے زخم بھی نمایاں ہوں 
قبا سمجھ کے بدن تار تار کرنا ہے 

خدا خبر یہ کوئی  ضد کہ شوق ہے محسن 
خود اپنی جان کے دشمن سے پیار کرنا ہے

مزاحیہ غزل ڈاکٹر فریاد آزرؔ


مزاحیہ غزل

ڈاکٹر فریاد آزرؔ 

(روحِ احمد فراز سے معذرت کے ساتھ)

’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘
سو ہم بھی آج یہی کام کر کے دیکھتے ہیں

ہے شوق اس کو موبائل سے بات کرنے کا
سو ہم بھی چار چھ مِس کا ل کر کے دیکھتے ہیں

جن عاشقوں کو بڑھاپہ کی پونچھ اگنے لگی
سنا ہے وہ بھی اسے دم کتر کے دیکھتے ہیں

بس اس لئے کہ اسے پھر نظر نہ لگ جائے
لگا کے سب اسے چشمے نظر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بالوں سے اس کو بڑی محبت ہے
تمام گنجے اسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سدھار پائے نہ جن کو پولس کے ڈنڈے بھی
وہی موالی اسے خود سدھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو امیر زادوں سے
سو آج ہم بھی اسے جیب بھر کے دیکھتے ہیں

وہ بالکونی میں آئے تو بھیڑ لگ جائے
رقیب ایسے میں جیبیں کتر کے دیکھتے ہیں

سڑک سے گزرے تو ٹریفک بھی جام ہو جائے
کہ اہلِ کار بھی اس کو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

مجھے بھی آج کسی پار لر میں لے چلئے
اسے رقیب بہت بن سنور کے دیکھتے ہیں

ہماری بات ہوئی تھی نہ دیکھنے کی اسے
ہم اپنی بات سے پھر بھی مکر کے دیکھتے ہیں

مشاعروں کے لئے چاہئے غزل ا س کو
یہی ہے مانگ تو پھر مانگ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے شوق ہے تیمار داریوں کا اسے
سو اپنے آپ کو بیمار کر کے دیکھتے ہیں

سنا گیا ہے کہ مردہ پرست ہے وہ بھی
تو جھوٹ موٹ کا پھر ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے لی ’جوڈو‘ کی تربیت اس نے
رقیب دور سے ہی اس کو ڈر کے دیکھتے ہیں

مکان اس کا ہے سرحد کے اس طرف لیکن
ادھر کے لوگ بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

’فرازؔ تم کو نہ آئیں محبتیں کرنی‘
سو اس گلی سے اب آزر ؔ گزر کے دیکھتے ہیں

ڈاکٹر فریاد آزر کی ایک غزل


آزما کر عالمِ ابلیس کے حربے جدید
ہوگئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید


ننھا کمپیوٹر، قلم، کاغذ، کتابوں کی جگہ
اس قدر سوچا نہ تھا ہو جائیں گے بچے جدید


دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِقدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید


ہو گیا محروم بینائی سے بھی اب آخرش
دیکھتا تھا رات دن وہ آدمی سپنے جدید


دادی اور نانی کے قصّوں میں مزہ اتا نہیں
اب سناتے ہیں مرے بچّے انھیں قصّے جدید


کیوں نہیں لے جاتی اب وحشت بھی صحرا کی طرف
بن گیا کیوں شہر از خود آج صحرائے جدید


سب سنائی دیتا ہے آزرؔ اذانوں کے سوا
محوِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدی