Download Urdu Novels in PDF, Free Urdu Novels PDF, Peer e Kamil by Umera Ahmed,

Tag

الہ آباد کی دو غیر مسلم شاعرات تحریر رضیہ کاظمی



الہ آباد کی دو غیر مسلم شاعرات
[۱]   اہل
شریمتی جانکی بی بی۔ یہ ۱۹ویں صدی کی ایک خوش فکر شاعرہ تھیں۔ یہ شہر کے کایستھ قوم سے تھیں۔ ان کا تذکرہ  الہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر ضامن ععلی صاحب نے ایک کتاب چراغ محفل ٖفصاحت میں کیا ہے۔
انکی ایک طویل غزل سے چند اشعار پیش خدمت ہیں؎
اشعار
تونے تو رہا کر ہی دیا زلف دوتا سے
ہم جان سے جائیں بھی تو اب تیری بلا سے

ملتا ہے وہ مضمون ہمیں ذہن رسا سے
رہ جاتا ہے جو بندش فکر شعرا ؐ سے

کعبہ کی طرف نشہ میں کس طرح سے جاؤں
دشوار سنبھلنا ہے مجھے نغزش پا سے

لایا جو شب ہجرمیں اے اہل زباں پر
تاثیرہم آغوش ہوٗی آکے زباں سے۔۔۔۔

اس گل کا نہ لائے کبھی پیغام مرے پاس
شرمندہ کبھی میں نہ ہوا باد صبا سے

تاحشر جدا ہوں نہ میں اس حور لقا سے
خواہش ہےاگردل میں تو اتنی ہے خدا سے

لیکر کہیں چھلّےکو کرےمجھ کو نہ بدنام
اتنا ہے فقط خوف مجھےدزد حنا سے

باقی نہ رہے خواہش مے بادہ کشوں کو
بےہوش کچھ ایسے ہوئے ساقی کی صلا سے

سچ پوچھئے تو خاک در یار پہ ہم کو
آرام ہے بڑھ کر کہیں نقش کف پا سے


[۲]سوشیلا
شریمتی سوشیلا عرف برج کشوری۔ یہ ۱۸۹۸میں الہ آباد میں پیدا ہوئی تھیں زمانہ کے لحاظ سے ان کی تعلیم گھر پرہی ہوئی تھی۔ ہندی کے علاوہ انھوں نےانگریزی اوراردو میں بھی قابلیت حاصل کی۔ انکے شوہر جو پیشہ سے اسسٹنٹ انجینیر تھے شاعری کرتے تھے
تذکرہ شعرائے کشمیری پنڈتاں المعروف بہ بہار گلشن کشمیر جلد ثانی سے ان کی دو نظمیں پیش ہیں یہ کتاب ۱۹۳۲میں شائع ہوئی تھی۔ ناظرین  سوسال پہلے ایک گھریلوعورت کےآزادئی نسواں سے متعلّق خیالات  ملاحظہ فرمائیں  ۔ یہ نظم کس موقع پر کہی گئی تھی اگر حوالہ دستیاب ہوتا تو پڑھ کر زیادہ لطف آتا
نظم اوّل
بحث تو یہ تھی اصولی مشفق شیریں زباں
اشتعال طبؑ کا باعث ہوا کیا مہرباں۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ پرورمجھ کو ہود عویٰ سخن کا کس طرح
مدّتوں سے ہے وطن پنجاب،پنجابی زباں

یہ سنا تھا آپ کا طرز بیاں دلچسپ ہے
شاعری کا آپ کی ہے معتقد سارا جہاں

ساری کوشش کی ہے صرف داستان حسن وعشق
بتکدہ کا آپ نے چوما ہے سنگ آستاں

مرحبا شان سلاست،حبّذا ذوق سلیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوب دی داد فصاحت آپ نے اے مہرباں

یہ فصاحت، یہ بلاغت، یہ سلاست آپ کی
اس پہ سونے پر سہاگہ اکبر آبادی زباں

چشم بد بیں دور، مطلع مطلع انوار ہے
جوہر پاکیزگی ہے دونوں مصرعوں سے عیاں

ٹھنڈے دل سے آپ نے سوچی کبھی یہ بات بھی
کیا ہیں وصف اردھانگنی کے،کیا ہیں اس میں خوبیاں

ہے شریک رنج وغم گوشامل راحت نہ ہو
آپ گو برہم ہوں لیکن وہ سدا ہے مہر باں

جام شیریں بادۂ الفت سے بھرتی ہے مدام
عفوکرتی ہےبرائی ،وصف سے تر ہے زباں

بیٹیاں ہوں یا ہوں بہنیں آپ کی شیدا ہیں وہ
ہے محبّت ان کی گویا ایک بحر بےکراں

کچھ ثبوت الفت ہمشیر کی حاجت نہیں
نخل الفت کے ثمر دونوں ہیں بیٹے بیٹیاں

آپ کے دم سےشجاعت میں ہےباقی ضرور
ہم نہ ہوتیں گر تو مٹ جاتا محبّت کا نشاں

دیکھئےمردوں کی خود داری کا یہ ادنیٰ ثبوت
لیڈیوں کے سامنے اٹھتی ہیں ان کی ٹوپیاں

شاستروں نے مرد کی اردھانگنی ہم کو کیا
اور بیٹر ہاف کہتا ہے ہمیں سارا جہاں

نذر کرتی آپ کو ہم  ہیں جواہر بے بہا
ہے ہماری ہی بدولت نسل کا  قائم نشاں

آپ موجد ہیں ہر اک ایجاد کے مانا مگر
موجدوں کے کون موجد ہیں یہ کہئےمہرباں

دہر ناقص ہےیہاں تکمیل ہےکس کونصیب
اک مکمّل ذات حق کی ہے بلا ریب و گمان

اے سوشیلا جس بلندی پر نشیمن ہے مرا
طبع موزوں کی وہاں پہچینگی کیا طغیانیاں

دیگر
سن چکے ماہ گزشتہ میں ہو مردوں کا بیاں
اب سنو میری زبانی عورتوں کی داستاں

زور بازوپر اگر مردوں کو نازو زعم ہے
ہیں تحمّل اور شکیب و صبر کی ہم پتلیاں

بھیم وارجن کی اگر طاقت پہ تم کو ناز ہے
دروپدی اور پدمنی سی ہم میں بھی تھیں رانیاں

رام چندر نے پتا کا گر وچن پالن کیا
تھی پتی برت دھرم میں سیتا بھی یکتائے زماں

تم پھروآزاد وآوارہ جہاں میں در بدر۔۔۔۔۔۔
طابع فرماں رہیں ہم اور  پابند مکاں

عقل میں کچھ کم نہیں ہیں شکل میں بہترہیں ہم
تم توانا ہو یہ مانا اور ہم ہیں ناتواں

کیوں نہ ہم چلّا ئیں، چیخیں، شیوۂ بیداد پر
کیوں نہ فریادی بنیں ہم بھی تو رکھتے ہیں زباں

ایک پہیے کی کبھی گاڑی چلا کرتی نہیں
تیر گرٹوٹاہوا ہے تو کماں بار گراں

ہم تووہ ہیں جان بھی قربان کردین آپ پر
آپ ہم سے ہو رہے ناحق کوہیں یوں بدگماں

یہ تو بتلاؤ کہ آخر حاصل محنت ہے کیا
کیا کیا ہے آج تک جس پر ہو کرتے شیخیاں

ہوچکا بس ہوچکا،اب انتظام قوم و ملک
آپ کی بد انتظامی پر ہے روتا آسماں

آزمائش میں ہوئے ہو بےطرح ناکامیاب
اب یہی بہتر ہے ہم کو دو حکومت کی عناں

آگیا اب روز آزادئی نسواں آگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدّتوں کے بعد پاؤں کی کٹینگی بیڑیاں

خواہش حشمت نہیں ہم کو نہ شوق انتقام
بے غرض اور نیک دل ہیں ہو نہ ہم سےبدگماں


رضیہ کاظمی صاحبہ کی تین غزلیں


رضیہ کاظمی صاحبہ کی تین غزلیں

ان کو عادت ہے آزمانے کی

اور  مجھ  کو   فریب  کھانے  کی

جایئں کیوں در پہ بار بار اُن کے

بات    یہ  ہے       اَنا    گنوانے    کی

اپنے  معمول  چھوڑ  کر   ان  کو

صرف دُھن ہے مجھے ستانے کی

ان کے  آنے  سے بڑھ گئ رونق

جاگی  قسمت   غریب خانے  کی

ہے   خبر  گرم    آ  گیا   صیّاد

اب   نہیں  خیر  آشیانے   کی

شاعری  دل  کو  جو چُھوۓ  رضیہ

مستحق    ہے   وہ   داد   پانے    کی

==================

وہ نہ کردہ گناہوں کی سزا  دیتے ہیں

ہم کہ اقرار میں سر اپنا  جھکا دیتے ہیں

مشتعل  ہونا   یوں  ہی  فطرتِ  انسانی  ہے

پھر بھی ہم کس لیے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں

گہہ لگا لیتے  ہیں آنکھوں سے وہ سرمہ کی طرح

مشتعل  آنسو  کبھی  نظروں سے گرا  دیتے ہیں

اک  تکلف  کی   جو   دیوار  کھڑی کر   لی  ہے

اب سمجھداری سے خود  مِل  کے گرا دیتے ہیں

دِ ن بدن رشتوں میں پڑتی رہیں یوں ہی گا نٹھیں

کیوں کہ ہم ہاتھ میں غیروں کے سِرا دیتے ہیں

یہ قدم وہ ہیں ٹھہر جایئں جہاں بھی تھک کر

ایک  منزل    نیئ    اُس  جا   کو  بنا   دیتے  ہیں

یا د آجاتے ہیں  ماضی  کے  سنہرے  لمحے

اور  وہ  رضیہ  ہمیں  دیوانہ  بنا  دیتے  ہیں



ہر چلن ہر نیے  معیار سے ڈر لگتا ہے

آج کل گرمیئ بازار سے ڈر لگتا ہے

وہ قیامت ابھی آجاۓجو کل آنی ہے

سر پہ لٹکی ہوئ  تلوار سے ڈر لگتا  ہے

اِ ن مکھوٹوں میں ہوں گے وہ ہی پُرانے چہرے

ہر   بدلتی   ہوئ   سرکار    سے    ڈر   لگتا   ہے

پا بہ  زنجیر  کیا   گھر   کے  جھمیلوں  نے   یوں

اب تو خود اپنے ہی گھر بار سے  ڈر لگتا   ہے

ایک سایہ بھی جو قسمت سے  ملا  یہ مجھ کو

ڈھے نہ جاے کہیں دیوار سے ڈر لگتا ہے

مشتبہ ٹھہرے  سبٖھی رضیہ  زمانے  والے


آستینوں میں  چھپے  مار  سے  ڈر لگتا ہے

فریاد آزر صاحب کی ایک غزل



لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی کی مسلسل قیامت میں ہیں
ہم ازل سے چمکتی ہوئی خواہشوں کی طلسمی حراست میں ہیں

اس کے کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ زندگی آخرت عکس ہے
اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم لوگ دوزخ میں ہیں یا کہ جنت میں ہیں

تجھ سے بچھڑے تو آغوشِ مادر میں‘پھر پانووں پر ‘پھر سفر درسفر
دیکھ پھر تجھ سے ملنے کی خواہش میں کب سے لگاتار ہجرت میں ہیں

بس ذرا سا فرشتوں کو بھی سمتِ ممنوعہ کی خواہشیں بخش دے
اور پھر دیکھ یہ تیرے بے لوث بندے بھی کتنی اطاعت میں ہیں

اُس طرف سارے بے فکر اوراق خوش ہیں کہ بس حرفِ آخر ہیں ہم
اِس طرف جانے کتنے مفاہیم پوشیدہ اک ایک آیت میں ہیں

منتظر ہے وہ لمحہ ہمارا‘ ہمارے سب اعمال نامے لیے
اور ہم بسترِ زندگی پر بڑے ناز سے خوابِ غفلت میں ہیں