کامران اسیر ساگر کی ایک بہترین غزل
قدیم تخت پہ لکھیں روایتیں پڑھ کر
شجر بھی رات کو روتے ہیں آیتیں پڑھ کر
چراغ بام پہ اوندھے پڑے ہوئے ہیں یہاں
ہوا بھی چیخ رہی ہے عبارتیں پڑھ کر
تمام خواب حقیقت پہ کھل رہے ہیں ابھی
کوئی جواب نہیں ہے شکایتیں پڑھ کر
کوئی وجود میسر نہیں ابھی مجھکو
بھٹک رہا ہوں میں دنیا کی نسبتیں پڑھ کر
قدم قدم پہ اذیت کا رقص جاری ہے
بتا یہ خواب کی تعبیر وحشتیں پڑھ کر
میں خواب خواب سجاتا ہوں وقت کا سینہ
گزشتہ قوم پہ گزری حکایتیں پڑھ کر
ستارے آن گرے خواب گاہ میں ساگر
سو آگئی ہے قیامت، قیامتیں پڑھ کر
کامران اسیر ساگر
0 comments:
Post a Comment
Give Us your voice...