Hamid Yazdani .. Zawiye kya kya bikhar kar
حامدؔ یزدانی
زاوئیے کیا کیا بکھر کر چشم تر میں رہ گئے
دیکھنے والے مگن ، کار ہنر میں رہ گئے
گر چکا پردہ ، سبھی کردار رخصت ہو چکے
پھر بھی کچھ منظر کف تمثیل گر میں رہ گئے
خستگان منزل حرف و معانی , کیا کہیں
کچھ سفر میں اور کچھ سطر سفر میں رہ گئے
گندھ گئے مٹی میں لیکن چاک تک پہنچے نہیں
نقش در کف تھے ، سو دست کارگر میں رہ گئے
خاک یوں بکھری مرے شوق سفر آغاز کی
فاصلے سارے سمٹ کر، بال و پر میں رہ گئے
0 comments:
Post a Comment
Give Us your voice...